رسائی کے لنکس

طالبان سپریم کمانڈر کے قریبی ساتھی کی بدھ کو پاکستان آمد متوقع؛ کیا تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے؟


تصویر کے دائیں جانب وسط میں بیٹھے ملا شیریں اخوندزادہ کو افغان طالبان کے سپریم کمانڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو)
تصویر کے دائیں جانب وسط میں بیٹھے ملا شیریں اخوندزادہ کو افغان طالبان کے سپریم کمانڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران افغان طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کے معتمدِ خاص اور صوبہ قندھار کے گورنر ملا شیریں اخوندزادہ کی بدھ کو اسلام آباد آمد متوقع ہے۔

ماہرین دونوں ملکوں کے تعلقات میں پیچیدگی کے تناظر میں اس دورے کو اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق گورنر شیریں اخوندزادہ ایک ایسے موقع پر اسلام آباد کا دورہ کر رہے ہیں جب حکومتِ پاکستان اور طالبان حکومت کے تعلقات میں سردمہری پائی جاتی ہے۔ تاحال اس دورے کی سرکاری سطح پر پاکستان یا طالبان حکومت کے دفتر خارجہ نے تصدیق نہیں کی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان نے طالبان حکومت کے ساتھ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد حملوں کا معاملہ متعدد مرتبہ اٹھایا ہے۔ پاکستان کو گلہ ہے کہ طالبان حکومت نے اس حوالے سے تاحال کوئی ٹھوس اور مثبت اقدامات نہیں کیے۔

اس سے قبل طالبان حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو دورۂ کابل کی دعوت دی تھی تاکہ دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی بداعتمادی کو ختم کیا جا سکے۔ مولانا فضل الرحمٰن اپنے حالیہ بیان میں واضح کر چکے ہیں کہ وہ چند روز میں کابل کا دورہ کریں گے۔

ماہرین اس دورے کو دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تعطل کو ختم کرنے کے حوالے سے ایک اہم کوشش قرار دیتے ہیں۔

افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ پاکستان اس کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے طالبان کی سینٹرل کمانڈ کے ساتھ براہ راست روابط استوار کر سکے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کابل میں طالبان کی قیادت بھی ٹی ٹی پی کے حوالے سے سینٹرل کمانڈ کے احکامات کی تابع ہے۔

سمیع یوسفزئی نے واضح کیا کہ عرصۂ دراز سے پاکستان کی یہ خواہش تھی کی طالبان سپریم لیڈر کے دفتر سے کوئی شخصیت پاکستان کا دورہ کرے۔ اس حوالے سے ملا شیریں اخوند اس لیے موضوع شخصیت ہیں کیوں کہ گورنر اور ملا ہبت اللہ کا دفتر تقریباً ایک ہی بلڈنگ میں ہے اور دونوں کا آمنا سامنا روزانہ کی بنیادوں پر ہوتا ہے۔

سمیع یوسفزئی کا مزید کہنا تھا کہ ملا شیریں اخوندزادہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ماضی میں طالبان کے بانی، ملا محمد عمر کے سیکیورٹی چیف کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ دیگر عہدوں کے علاوہ وہ طالبان کے انٹیلی جینس چیف کے طور پر بھی فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔

کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال دسمبر میں 60 سے زائد حملے کیے گئے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی ایک حالیہ رپورٹ میں ملکی سیکیورٹی صورتِ حال کو 2014 کے مقابل قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں سال ملک بھر میں خود کش حملوں کی شرح میں خطرناک حد تک 93 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے معاملے پر تعطل نے دونوں ممالک کے تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے۔

سینئر تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہے کہ طالبان وفد کے دورۂ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملوں کے ساتھ ساتھ بارڈر میکنزم سمیت دیگر اُمور پر بھی تبادلہ خیال ہو سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے طاہر خان نے مزید بتایا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر براہِ راست الزامات لگا رہے ہیں جو بداعتمادی کا واضح اشارہ ہے۔

ماہرین کے مطابق ٹی ٹی پی کے حوالے سے بعض افغان سینئر کمانڈر بھی پاکستانی مؤقف کی تائید کرتے ہیں تاہم اپنے طور پر کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔

سمیع یوسفزئی کہنے ہیں کہ وہ نہیں سمجھتے کہ طالبان حکومت پاکستانی خواہشات کے عین مطابق ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرے گی۔

ان کے بقول 20 برسوں تک امریکہ، نیٹو، حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی کی حکومیتں پاکستانی حکومت سے افغان طالبان کے رہنماؤں کے خلاف کارروائیوں کا کہتے رہے ہیں۔ تاہم پاکستان ایک حد تو ان کے خلاف سرگرم عمل ضرور دکھائی دیا، تاہم مکمل طور پر افغان طالبان کے خلاف اس نہج تک کارروائیاں نہیں کیں جس حد تک ان پر دباؤ ڈالا جاتا رہا۔

اُن کے بقول اسی طرح افغان طالبان کی بھی اپنی مجبوریاں اور مصلحتیں ہیں اور وہ ٹی ٹی پی کا افغانستان میں مکمل خاتمہ نہیں کر سکتے۔

سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنے میں مدد گار ثابت ہو گا کیوں کہ دونوں ممالک کے درمیان خلیج کافی وسیع ہو چکی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG