رسائی کے لنکس

برطانیہ : اسکولوں میں ’راکٹ بیج‘ اگانے کا تجربہ


برطانوی خلا باز ٹم پیک نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اسکولوں کے بچوں سے پوچھا ہے کہ کیا وہ ایک سائنسی تجربے میں ان کی مدد کریں گے۔

برطانیہ کے ہزاروں اسکول پودوں کی نشوونما اور ترقی پر خلا کے اثرات سے متعلق ایک ملک گیر تحقیق میں حصہ لے رہے ہیں۔

ملک بھر سے پرائمری اور ثانوی اسکولوں کے طلبہ ان دنوں راکٹ بیجوں یا خلائی سفر سے واپس بھیجے گئے بیجوں کو اسکول میں اگانے کا تجربہ کر رہے ہیں۔

یوکے خلائی ایجنسی کے سائنس دانوں کی طرف سے منعقدہ ایک قومی مطالعے کے حصے کے طور پر تقریباً 10 ہزار سے زائد پرائمری اور ثانوی اسکولوں میں راکٹ بیج تقسیم کئے گئے ہیں۔

پودوں کی نشوونما اور ترقی پر خلا کے اثرات کے حوالے سے کی جانے والی قومی مہم کو 'راکٹ سائنس' کا نام دیا گیا ہے۔ جس میں برطانوی خلا باز ٹم پیک نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اسکولوں کے بچوں سے پوچھا ہے کہ کیا وہ ایک سائنسی تجربے میں ان کی مدد کریں گے۔

وہ چاہتے ہیں کہ بچے زمین پر ان راکٹ بیجوں کو اگانے کا تجربہ کریں جو پچھلے کئی مہینوں سے ان کے ساتھ خلا میں ہیں۔

اس تجربے کی تفصیلات کا خاکہ پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ تقریباً دس لاکھ سے زائد بیج خلا سے واپس زمین پر بھیج رہے ہیں اور اس تجربے میں بچوں کو راکٹ بیجوں کی نشوونما اور ترقی کا موازنہ ان بیجوں کے پودوں کے ساتھ کرنا ہے جو زمین پر تھے۔

اس تجربے کی روشنی میں سائنس دان یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا صفر کشش ثقل بیج کی نشوونما کے میکانزم کو متاثر کر سکتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق برطانوی باغبانی سوسائٹی آر ایچ ایس اور یوکے خلائی اسٹیشن نے ایک ٹیم کی حیثیت سے برطانوی خلاباز ٹم پیک کے ساتھ دو کلو راکٹ بیجوں کا ایک تھیلا خلا میں بھیجا تھا۔

یہ بیج ناسا کی خلا نورد اسکاٹ کیلی مارچ میں واپس زمین پر لے کر آئی ہیں۔

ان بیجوں کو قومی مطالعے میں حصہ لینے والے ہزاروں اسکولوں کو بھیج دیا گیا ہے۔

سائنسی تجربے کی شرائط کے مطابق تمام اسکولوں کو بیج نیلے اور سرخ رنگ کے دو الگ الگ پیکٹ بھیجے گئے ہیں جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ طلبہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ کونسے پیکٹ کے بیج خلا میں بھیجے گئے تھے۔

تحقیق میں شرکت کرنے والے اسکولوں کے بچوں نے ان دونوں پیکٹوں کے بیجوں کو کلاس روم کی کھڑکی کی دہلیز پر دو الگ الگ ٹرے میں ایک ساتھ اگایا گیا ہے اور رائل باغبانی سوسائٹی کی ہدایات کے مطابق طلبہ دیوار پر ایک چارٹ میں پودوں کے پتوں، ان کی نشوونما اور ترقی کے بارے میں ریکارڈ تیار کر رہے ہیں۔

سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس طرح کے بڑے پیمانے پر حاصل ہونے والے اعدادوشمار کے نمونے جمع کرنے سے محققین کو یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ صفر کشش ثقل، کائناتی تابکاری اور مٹی، ہوا اور پانی میں مائیکرو حیاتیات کی کمی جیسے عوامل پودوں کی نشوونما اور ترقی پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں وہ یہ شناخت کر سکیں گے کہ اگر انسان نے دور سیاروں کا سفر کیا تو خلا کے باغات کے لیے کونسی فصل اچھی ہو سکتی ہے جو خلانوردوں کے لیے پائیدار خوارک کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔

یورپی خلائی اسٹیشن کے مطابق بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ہر ایک خلا نورد کو یومیہ پانچ کلو خوراک اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے جس کی فراہمی باقاعدگی سے زمین سے موصول ہوتی رہتی ہے۔

یہ ایک 35 دنوں کا سائنسی تجربہ ہے جس کے بعد آر ایچ ایس کی طرف سے تمام اسکولوں سے نتائج اکھٹے کئے جائیں گے اور ماہرین حیاتیات کی طرف سے پودوں کے درمیان اختلافات کو ناپا جائے گا۔

نتائج کو ستمبر 2016ء میں شائع کیا جائے گا۔ اس وقت تک طلبہ یہ نہیں جان سکیں گے کہ راکٹ بیج سے اگنے والے پودے کون سے ہیں۔

XS
SM
MD
LG