رسائی کے لنکس

معیشت سے متعلق رپورٹ؛ 'پاکستان کی حکومت کو فوراً آئی ایم ایف کے پاس جانا ہو گا'


پاکستان کی وفاقی وزارتِ خزانہ نے معاشی عدم توازن، بڑھتے ہوئے قرضے اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کو گورننس کے لیے بڑے چیلنجز قرار دیا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو حالیہ برسوں میں متعدد چیلنجز کا سامنا رہا ہے جس کی وجہ سے اقتصادی ترقی متاثر ہوئی ہے۔

وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی سمیت کئی دیگر عوامل کی وجہ سے ملک میں مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔

وزارتِ خزانہ کی رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اکثریت نہیں ملی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے مخلوط حکومت قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے، تاہم پیپلزپارٹی نے کابینہ میں شامل ہونے سے معذرت کی ہے۔

معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملک کی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا، لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔

'آئندہ حکومت کو جلد آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ہو گا'

اقتصادی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف، عالمی ریٹنگ ایجنسی فنچ بھی اسی نوعیت کے خدشات کا اظہار کر چکے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فرخ سلیم نے کہا کہ پاکستان کو اربوں ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں جس کے لیے لامحالہ آئی ایم ایف سے رُجوع کرنا پڑے گا۔

فرخ سلیم کہتے ہیں کہ پاکستان کی آئندہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج معیشت کے بحران پر قابو پانا ہو گا۔

پاکستان کی حکومتیں اپنی معاشی پالیسیاں آوٹ سورس کر دیتی ہیں
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:24 0:00

واضح رہے کہ پاکستان میں مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور عام لوگوں کے لیے گیس اور بجلی کے بل کی ادائیگی بھی مشکل ہو گئی ہے۔

فرخ سلیم کہتے ہیں کہ پاکستان کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) جو آئندہ کی مخلوط حکومت بنانے پر اتفاق کر چکی ہیں کی طرف سے ابھی تک یہ اعلان سامنے نہیں آیا ہے کہ پاکستان کا آئندہ وزیرِ خزانہ کون ہو گا۔

'معاشی استحکام، سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں ہو گا'

اقتصادی امور کے تجزیہ کار شہریار بٹ کہتے ہیں کہ مارچ کے اواخر میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر قسط کے حصول کے لیے مذاکرات کرنا ہوں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شہریار بٹ نے کہا کہ پاکستان کو گردشی قرضوں کا سامنا بھی ہے جب کہ ٹیکس ریونیو بڑھانا بھی ایک چیلنج ہے۔

اُن کے بقول آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو توانائی کی قمیتوں میں مزید اضافہ کرنا ہو گا۔

شہریار بٹ کہتے ہیں کہ اگر ملک میں جلد سیاسی استحکام نہ آیا تو ملک کی معیشت کے لیے چیلنجز بڑھ سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے اور اسی صورت میں پاکستان کے دوست ممالک اور دیگر مالیاتی اداروں سے فنڈنگ مل سکتی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG