رسائی کے لنکس

خارجہ اُمور اسحاق ڈار کے سپرد: 'کسی کیمپ کا حصہ نہ بننے کی پالیسی جاری رہے گی'


  • ماہرین کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کے معاشی چیلنجز کم نہ ہوئے تو اس کا لامحالہ اثر خارجہ محاذ پر بھی پڑے گا۔
  • مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسائل نہایت پیچیدہ ہیں۔ لیکن تعلقات میں بہتری دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
  • حسن عسکری کے بقول طالبان حکومت پاکستان سے افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے پر ناخوش ہے۔

پاکستان کے نئے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں متعدد بار وزیرِ خزانہ رہنے والے اسحاق ڈار کی بطور وزیرِ خارجہ تقرری کا معاملہ پاکستان میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

اسحاق ڈار نے منگل کو اپنا عہدہ ایسے وقت میں سنبھالا ہے جب ماہرین کے مطابق پاکستان کو معاشی اور خارجہ محاذ پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔

گو کہ اسحاق ڈار نے تاحال کوئی پالیسی بیان نہیں دیا۔ تاہم رواں ماہ وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد شہباز شریف نے واضح کیا تھا کہ پاکستان اب کسی 'گریٹ گیم' کا حصہ نہیں بنے گا جب کہ امریکہ سمیت ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کے معاشی چیلنجز کم نہ ہوئے تو اس کا لامحالہ اثر خارجہ محاذ پر بھی پڑے گا اور پاکستان کے پاس آپشنز کم ہوتے جائیں گے۔

ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی؟

سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے سابق چیئرمین مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ خارجہ محاذ پر پاکستان کے بھارت، افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات اہمیت کے حامل ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب تک خطے کے حل طلب مسائل کا کوئی حل نہیں نکل آتا، پاکستان کے لیے خارجہ محاذ پر پیش رفت ممکن نہیں ہو گی۔

یاد رہے کہ پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات ایک عرصے سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ اگست 2019 میں بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد اسلام آباد اور نئی دہلی کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔

مشاہد حسین سید کے بقول پاکستان میں نئی حکومت بن چکی ہے جب کہ بھارت میں بھی مئی میں نئی حکومت بننے جا رہی ہے۔ لہذٰا اُمید کی ایک کرن نظر آتی ہے۔

مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسائل نہایت پیچیدہ ہیں پر تعلقات میں بہتری دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔

بین الاقوامی اُمور کے تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ اگست 2019 کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں تعطل زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ بھارت میں مئی میں انتخابات ہونے ہیں جس کے بعد ہی صورتِ حال واضح ہو گی کہ تعلقات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں۔

ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کا چیلنج

بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات بھی تناؤ کا شکار رہے ہیں۔ حال ہی میں ایرانی سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان میں دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا جس کے جواب میں پاکستان نے بھی ایران میں جوابی کارروائی کی تھی۔

دوسری جانب افغانستان میں کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائیاں نہ ہونے پر پاکستان افغانستان میں طالبان حکومت سے بھی نالاں ہے جب کہ مہاجرین کی بے دخلی پر افغان طالبان پاکستان سے ناراض ہیں۔

مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ پاکستان کی نئی حکومت کے لیے ان دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بات چیت کا راستہ ہی اختیار کرنا ہو گا۔

حسن عسکری کہتے ہیں کہ دیکھنا یہ ہو گا کہ شہباز حکومت افغان طالبان کے ساتھ کس نوعیت کے روابط رکھتی ہے۔ لہذٰا اسی سے یہ تعین ہو گا کہ دونوں ممالک کے تعلقات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں۔

حسن عسکری کے بقول طالبان حکومت پاکستان سے افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے پر ناخوش ہے۔ کیوں کہ یہ فیصلہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے کیا ہے، لہذٰا اسے تبدیل کرنا نئی حکومت کے لیے مشکل ہو گا۔

حسن عسکری کہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے جو بحران پیدا ہوا تھا وہ اب ٹل گیا ہے۔

تاریخی طور پر مغربی یورپ، برطانیہ اور روس کے درمیان وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی اور اثر و نفوذ حاصل کرنے کی مسابقت کو 'گریٹ گیم' کا نام دیا گیا تھا۔ بعد میں یہی اصطلاح افغانستان میں سابق سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت کے لیے استعمال کی گئی۔ اب یہی اصطلاح امریکہ اور چین کے درمیان جاری مسابقت کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

تجزیہ کار پروفیسر اعجاز خٹک کہتے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے یہ بات ماضیٔ قریب میں بھی کہی جاتی رہی ہے کہ پاکستان کسی کیمپ کا حصہ نہیں بنے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر اعجاز خٹک کا کہنا تھا کہ پاکستان کی یہ خواہش ہو گی کہ امریکہ اور چین کی بڑھتی ہوئی مسابقت میں فریق نہ بنے۔

لیکن کیا پاکستان اس سے الگ رہ سکتا ہے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے اور اس سے بھی بڑا اور اہم سوال یہ ہے کیا پاکستان میں اتنی سکت ہے کہ اس مسابقت کا حصہ نہ بنے۔ پروفیسر اعجاز کے بقول یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ چین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کا براہِ راست اثر پاکستان پر کچھ زیادہ نہیں پڑ رہا۔

اُن کے بقول پاکستان چین کے بہت قریب ہے اور چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) میں جو مشکلات آئیں تھیں وہ اب ماضی کا قصہ بن چکی ہیں۔

پروفیسر اعجاز خٹک کہتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بھی یہی اپروچ ہے کہ امریکہ، چین اور پاکستان کی مسابقت میں غیر جانب دار رہے۔

اُن کے بقول ماضی میں پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف تجارت اور معاشی رابطوں کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتر کرنے کے خواہاں رہیں گے۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں قائم ہونے والے حکومت اس حوالے سے کوئی پیش رفت کر سکے گی یا نہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG