رسائی کے لنکس

پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف کو خط لکھ دیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان تحریکِ انصاف نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو خط ارسال کر دیا ہے جس میں کسی بھی قسم کے بیل آؤٹ پیکج کے لیے مذاکرات میں ملک کے سیاسی استحکام کو مد نظر رکھنے کا کہا گیا ہے۔

اسلام آباد میں تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ تحریکِ انصاف ملک کی معیشت کی تباہی نہیں چاہتی۔

عمر ایوب کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ملک کی ترقی کی خواہش مند ہے۔ ملک کے لیے لیا جانے والا قرضہ ترقی کے لیے استعمال کیا جائے اسے شاہ خرچیوں کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔

عمرن ایوب نے کہا ہے کہ ہم کسی صورت بھی پاکستان کے معیشت میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتے۔

ان کا کہنا تھا کہ معاشی اصلاحات کے لیے ایک مضبوط اور شفاف حکومت کا کام ہے کسی کمزور یا کرپٹ حکومت نہیں کرسکتی۔

سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت خط کے ذریعے باضابطہ طور پر عالمی مالیاتی ادارے کو اپنے تحفظات سے آگاہ کر چکی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد بننے والی نئی حکومت کو معاشی مسائل سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی ڈونرز سے قرضوں کی ضرورت پڑے گی۔

پاکستان نے گزشتہ برس آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکج حاصل کیا تھا اور نئی آنے والی حکومت کو بھی ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ سکتا ہے۔

گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ ادارہ اسٹینڈ بائی پروگرام مکمل کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے تاہم چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں نئی قائم ہونے والی حکومت سے تعاون کے لیے تیار ہے۔

آئی ایم ایف نے تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کے اس بیان پر بھی کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا جس میں انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ وہ نئی حکومت کے قیام سے قبل آٹھ فروری کے انتخابات میں ہونے والی مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے زور دے۔

"خط کے مندرجات میڈیا کے سامنے لائیں گے"

بدھ جو پریس کانفرنس میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آئی ایم ایف کو خط موصول ہونے کے بعد اس کے مندرجات سے میڈیا کو آگاہ کیا جائے تاہم اس لیٹر کے آغاز ہی میں واضح کیا ہے کہ ہم پاکستان کی معیشت میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتے۔

اس موقعے پر معاشی امور سے متعلق پی ٹی آئی کے ترجمان مزمل اسلم نے بتایا کہ گزشتہ برس آئی ایم ایف نے عمران خان کی تائید حاصل کرنے کے بعد نو ماہ کا پروگرام دیا تھا۔ جب کہ اس وقت عمران خان کو مقدمات کا سامنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جون 2023 میں ہونے والے رابطے میں عمران خان نے آئی ایم ایف سے پوچھا تھا کہ یہ پروگرام ہے کیا؟ جس پر آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ اس پروگرام کے تین حصے ہوں گے۔ پہلا پی ڈی ایم کی حکومت کو دیا جائے گا۔ دوسرا حصہ نگراں حکومت کے لیے ہوگا اور تیسرا حصہ نئی حکومت کو دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت نومبر 2023 میں انتخابات متوقع تھے۔ عمران خان نے آئی ایم ایف سے پوچھا کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ نومبر میں انتخابات ہوں گے جس پر آئی ایم نے کہا کہ حکومت نے ہمیں گارنٹی دی ہے۔

مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ اس وقت عمران خان نے آئی ایم ایف پر واضح کیا تھا کہ کیا آپ آزاد، شفاف اور مںصفانہ الیکشن کی ضمانت دیتے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ نومبر میں آئی ایم ایف پروگرام کا پہلا جائزہ ہونا تھا جس کے لیے جب وفد آیا تو اس نے ایک بار پھر پی ٹی آئی سے رابطہ کیا۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ عمران خان جیل میں ہیں اور دیگر قیادت روپوش ہے اس لیے اب رابطہ نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہ آئی ایم ایف کا یہ جائزہ 15 نومبر کو مکمل کیا جس کے بعد قسط سات دسمبر کو جاری ہونا تھی لیکن نہیں کی گئی۔ بورڈ آف ڈائریکٹر نے کہا جب پی ٹی آئی کی قیادت سے ملاقات سے پہلے جاری نہیں کریں گے جس کے بعد بیرسٹر گوہر نے ان سے ملاقات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی جون اور دسمبر 2023 میں تعاون نہیں کرتی تو پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کی قسط نہیں ملتی۔

مزمل اسلم نے کہا کہ آئی ایم ایف کو لکھے گئے خط کی بنیاد یہ ہے کہ مالیاتی ادارے نے یقین دہانی کرائی تھی کہ جب مینڈیٹ رکھنے والی حکومت آئے گی تو اگلی قسط کے لیے ان سے بات چیت ہوگی۔ لیکن جس طرح انتخاب ہوا ہے وہ آپ کے سامنے ہے اور اسی کی یاد دہانی کے لیے ہم نے آئی ایم ایف کو خط لکھا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موڈیز نے بھی کہا ہے کہ آئندہ آنے والی حکومت کا مینڈیٹ ان اصلاحات کے لیے کافی نہیں ہے جو آئندہ آئی ایم ایف پروگرام پر مذاکرات کے لیے درکار ہوں گی جس کی وجہ سے اس میں تاخیر کا امکان ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے آئی ایم ایف کو خط لکھنے کی صورت میں آئندہ بننے والی حکومت کے ساتھ مالیاتی ادارے کے مذاکرات اثر انداز نہیں ہوں گے۔

سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی جماعت نے حالیہ انتخابات کے نتائج میں دھاندلی کے سنگین الزامات عائد کیے تھے اور عالمی مالیاتی ادارے سے رجوع کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔

واضح رہے کہ اپریل 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی تھی۔ اپوزیشن کا الزام تھا کہ عمران خان نے اپنی حکومت ختم ہونے سے قبل آئی ایم ایف کے چھ ارب روپے کے پروگرام کی خلاف ورزیاں کی تھیں۔ عمران خان ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ایک ای میل میں آئی ایم ایف نے کہا کہ اسے تاحال پی ٹی آئی کی جانب سے خط موصول نہیں ہوا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG