رسائی کے لنکس

ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر پاکستان میں تنقید


The Capitol is seen in Washington as White House officials plan to meet with the Republican and Democratic leaders of both chambers to discuss the budget.
The Capitol is seen in Washington as White House officials plan to meet with the Republican and Democratic leaders of both chambers to discuss the budget.

پاکستان میں قانون سازوں اور پاکستان علما کونسل کے سربراہ حافظ طاہر اشرفی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے امن کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔

پاکستان میں مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں اور مذہبی شخصیات نے امریکہ میں صدراتی نامزدگی کی دوڑ میں شامل امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کی مذمت کی ہے جس میں انہوں نے مسلمانوں کے امریکہ داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔

قانون سازوں کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان مذہبی تعصب پر مبنی ہے اور تشدد پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔

ٹرمپ کے اس بیان کی وائٹ ہاؤس سمیت امریکہ کے کئی حلقوں کی طرف سے سخت مذمت کی گئی ہے۔

ٹرمپ کا بیان غیر ذمہ دارانہ ہے: پاکستانی قانون ساز
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:34 0:00

گزشتہ ہفتے ایک مسلمان جوڑے کی جانب سے کیلیفورنیا میں فائرنگ کے واقعے کے بعد ٹرمپ نے کہا تھا کہ مسلمانوں کی امریکہ میں داخلے پر اس وقت تک مکمل پابندی عائد کی جائے ’’جب تک ہمارے ملک کے نمائندے یہ نہ جان لیں کہ کیا ہو رہا ہے۔‘‘

مذہبی علما کی ایک تنظیم پاکستان علما کونسل کے سربراہ حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان تشدد کو فروغ دے گا۔

’’اس بیان سے امن کی کوششوں کو دھچکا لگا ہے، اور جو انتہا پسند و شدت پسندی ہے اُس کو تقویت ملی ہے۔۔۔ اس لیے یہ بہت ہی قابل افسوس اور قابل مذمت بیان ہے اور میرا خیال ہے کہ امریکی عوام خود بھی سے مسترد کر دیں گے۔‘‘

پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ٹرمپ اس طرح کے بیان سے امریکہ کے ایک مخصوص طبقے کی پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’’لیکن امریکی حکومت کا ردعمل مناسب ہے۔‘‘

پاکستان کے سابق وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ کہتے ہیں کہ موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اس طرح کے بیان سے اجتناب کرتے ہوئے بین المذہب ہم آہنگی کے فروغ پر بات کی جائے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی کہہ چکے ہیں کہ کسی فرد واحد کے فعل یا اقدام کو جواز بنا کر پورے پاکستان یا دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔

دریں اثناء انڈونیشیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارماناتھا ناصر نے کہا کہ ملک کی حکومت دوسرے ممالک کی انتخابی مہم کے بارے میں تبصرہ نہیں کرے گی اور کہا کہ ان کا ملک دہشت گردی پر اپنا مؤقف واضح کر چکا ہے۔

’’دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی والا ملک ہونے کی حیثیت سے انڈونیشیا اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ اسلام امن اور رواداری سکھاتا ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں کا کسی مذہب، ملک یا نسل سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

انڈونیشیا کی دوسری بڑی مسلم تنظیم محمدیہ کے سربراہ دین شمس الدین نے کہا کہ ٹرمپ کا تبصرہ ایک لطیفہ تھا۔

’’یہ مضحکہ خیز بات ہے کہ اس جدید، عالمگیر دور میں بھی ایک ایسا شخص ہے جو اتنا تنگ نظر ہے کہ وہ کچھ لوگوں کا امریکہ میں داخلہ بند کرنا چاہتا ہے۔‘‘

جکارتہ میں ایک سفید پوش ملازم رزقی اولیا نے کہا کہ مسلمانوں اور دہشت گردی میں کوئی تعلق نہیں۔

’’میرا خیال ہے کہ دہشت گردی مذہب سے متعلق نہیں۔ غیر مسلم بھی یہ کرتے ہیں تو پھر مسلمانوں کے امریکہ جانے پر کیوں پابندی ہونی چاہیئے؟‘‘

پیر کو جنوبی کیرولائنا میں ایک ریلی میں دیے گئے ٹرمپ کے بیان پر سابق رپبلیکن نائب صدر ڈک چینی اور صدرارتی دوڑ میں شامل جیب بش نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کا ’’ذہنی توازن خراب ہو گیا ہے۔‘‘

ایک مسلمان جوڑے سید رضوان فاروق اور ان کی بیوی تشفین ملک پر الزام ہے کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے کیلیفورنیا کے شہر سان برنارڈینو میں فائرنگ کر کے 14 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ سید رضوان فاروق امریکہ شہری ہیں جبکہ تشفین مالک پاکستان میں پیدا ہوئیں اور سعودی عرب میں زیادہ وقت گزارنے کے بعد رضوان فاروق سے شادی کرکے امریکہ منتقل ہو گئیں تھیں۔

XS
SM
MD
LG