رسائی کے لنکس

پاکستان اور افغانستان، دنیا بھر میں دو ملک جہاں بچے اب بھی پولیو کا شکار ہیں


پاکستان میں جہاں ملک گیر پولیو ویکسینیشن مہم کا آغاز پیر کے روز سے کیا گیا ہے، دنیا کےان دو ممالک میں سے ایک ہے جہاں مفلوج کر دینے والا یہ وائرس اب بھی موجود ہے۔

پاکستان میں اس سال اب تک اس انتہائی متعدی بیماری کے پانچ کیسز کے بارے میں اطلاع ملی ہے۔ پولیو کے خاتمے کی اس تازہ ترین مہم کے دوران , پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سمیت ملک کے بیشتر حصوں میں 4کروڑسے زیادہ بچوں کو ویکسین پلائی جائے گی۔

پاکستان 2021 میں پولیو کا تقریبا خاتمہ کر چکا تھا جب اس وائرس سے متاثرہ صرف ایک کیس کی اطلاع سامنے آئی تھی۔ تاہم، گزشتہ سال ملک میں پولیو کیسز میں ایک ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا جب اس کے 20 کیسز رپورٹ ہوئے۔

ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر کراچی میں اس سال دو کیس منظر عام پر آئے جبکہ مجموعی کیسز کی تعداد پانچ ہے۔

پاکستان کے صوبائی ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے ترجمان سید نوفل نقوی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کراچی میں ان دونوں کیسز کا تعلق افغان خاندانوں کے بچوں سے ہے جو برسوں سے پاکستان میں آباد ہیں۔

نقوی نے اس مرض کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان نقل و حرکت کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا۔ افغانستان پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے کوشاں واحد دوسرا ملک ہے جہاں 2023 میں اب تک چھ کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔

نقوی کا کہنا ہے کہ پاکستان بھر میں پائے جانے والےوائرس کے نمونے جینیاتی طور پر افغانستان سے ملنے والے نمونوں سے مشابہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پولیو ٹیمیں بس سٹاپوں اور دیگر ٹرانزٹ پوائنٹس پر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلاتی ہیں تاکہ مسافروں کی آمدورفت کے نتیجے میں پھیلنے والے اس وائرس کی روک تھام کی جا سکے۔

ویکسین سے انکار کی وجہ گمراہ کن پروپیگنڈا اورمعلومات نہ ہونا ہے

پاکستان میں اس سال پولیو کے باقی تمام کیسز کا تعلق شمالی صوبے خیبر پختونخوا کے ایک قصبے بنوں سے ہے۔ صوبائی ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے ڈپٹی کوآرڈینیٹر محمد ذیشان خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ متاثرہ تینوں بچوں کے خاندانوں نے انھیں پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا تھا۔

اس کے علاوہ ان بچوں کو مدافعت بڑھانے والا ایک ابتدائی انجکشن بھی نہیں لگایا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تینوں بچے فالج کا شکار ہو گئے۔ ذیشان خان نے کہا کہ ان خاندانوں کو خدشہ ہے کہ ویکسین ان کے بچوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

پاکستان میں والدین کی طرف سے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار پولیو وائرس کی موجودگی کی ایک بنیادی وجہ ہے۔

پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہلکار اکثر والدین اور عسکریت پسندوں کے مہلک حملوں کی زد میں آتے ہیں جو ویکسینیشن کی مہم کو پاکستانی بچوں کو ایک غیر ملکی سازش کے طور پر دیکھتے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ اس کے نتیجے میں وہ بانجھ پن کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ انہیں یہ غلط فہمی بھی ہےکہ انہیں ایسے اجزا دیے جاتے ہیں جو مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہیں۔

پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں صوبائی حکام نے اکتوبر میں 16 ہزار سے زیادہ بچوں کے والدین کی طرف سے انکار کی اطلاع دی۔ صوبائی ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے ڈپٹی کوآرڈینیٹر محمد ذیشان خان کے مطابق صوبائی دارالحکومت پشاور میں تقریباً 8 ہزار والدین کی طرف سے انکار ریکارڈ کیا گیا۔

اس کے بعد بنوں اور شمالی وزیرستان کا نمبر آتا ہے جہاں گزشتہ سال پاکستان میں پولیو کے سب سے زیادہ کیس سامنے آئے تھے۔ خیبرپختونخوا میں رواں سال پولیو ٹیموں پر تشدد کے 14 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔

حکام مقامی علما اور اثر و رسوخ رکھنے والوں کو ایسی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے لیے مہم میں شامل کر رہے ہیں اور والدین کو اپنے بچوں کو قطرے پلانے پر آمادہ کرنے کے لیے ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر مہم چلا رہے ہیں۔

بعض والدین کے انکار کی وجہ بنیادی ضروریات کا فقدان ہے۔

قومی ایمرجنسی آپریشن سنٹر کی جانب سے تازہ ترین مہم سے معلوم ہوا ہے کہ خیبر پختوںخواہ کی متعدد کمیونیٹیز نے اپنے بچوں کو اس وقت تک ویکسین دینے سے انکار کیا ہے جبتک انھیں گیس، سڑکیں یا پھر اساتذہ فراہم نہیں کر دیے جاتے۔

صوبائی ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے ڈپٹی کوآرڈینیٹر محمد ذیشان خان کہتے ہین کہ ہمارے لیے سب سے زیادہ تشویش ان بچوں کے بارے میں ہے جنھیں پولیو کے قطرے پلانے سے والدین انکار کرتے ہیں۔ کسی بھی مہم کے دوران ہزاروں بچے ویکسین سے صرف اس لیے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ گھر پر نہیں ہوتے، یا پھر گھر میں کسی مرد رکن کے موجود نہ ہونے کی صورت میں خاندان والے ٹیم کو اندر جانے کی اجازت نہیں دیتے۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں 13 فیصد سے زیادہ بچے ایسے ہیں جو پچھلی مرتبہ ویکسین لینے سے محروم رہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں بھی تقریباً 1.2 فیصد یا 90 ہزار سے زیادہ بچے اس مہم کے دوران ویکسین نہیں لے سکے۔

ذیشان خان کہتے ہیں کہ پھر بھی متعدد بچوں کو مہمانوں کے طور پر ٹیکہ لگایا جاتا ہے چاہے وہ کسی بھی کمیونٹی میں عارضی طور پر موجود ہوں۔کوئٹہ میں بھی اعداد و شمار کے مطابق ایسے بچوں کی نصف تعداد کو ویکسین دے دی گئی ہے جو پچھلی مہموں کے دوران کسی وجہ سے ویکسین نہیں لے پائے تھے۔

بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے افغانستان کے ساتھ منسلک کچھ حصوں میں اس بار بھی ویکسی نیشن مہم کو نہیں چلایا جا سکا کیونکہ وہاں سیکیورٹی خدشات موجود ہیں۔

صوبائی ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے ترجمان سید نوفل نقوی کو امید ہے کہ پاکستان معذور کر دینے والے اس مرض کے مکمل خاتمے کے قریب ہے۔

نقوی کا کہنا ہے کہ ہم والدین تک پیغام پہنچانے کے لیے ایک مثبت انداز اپنا رہے ہیں۔ ہم نے ایسے اشتہار بھی آویزاں کئے ہیں جن پر تحریر ہے کہ ’’محتاط رہیے۔ آپ کے علاقے میں پولیو وائرس موجود ہے۔‘‘ اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’ہم پولیو کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔‘‘

سارہ زمان ۔وائس آف امریکہ

فورم

XS
SM
MD
LG