رسائی کے لنکس

غیر قانونی مہاجرین کی بے دخلی کا دوسرا مرحلہ: واپس جانے والے افغان باشندے بحالی کے منتظر


  • پاکستان کی نگراں حکومتِ نے گزشتہ برس اکتوبر میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تھا۔
  • غیر قانونی تارکینِ وطن میں بڑی تعداد افغان مہاجرین کی ہے۔
  • پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

پاکستان کی حکومت نے ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیشِ نظر غیر قانونی تارکینِ وطن کی بے دخلی کے دوسرے مرحلے کا آغاز کر دیا ہے۔

دوسرے مرحلے کا آغاز ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب کہ پہلے مرحلے میں پاکستان سے بے دخل کیے گئے لاکھوں افغان باشندے آباد کاری کے منتظر ہیں۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب چند روز قبل خیبرپختونخوا کے ضلع شانگلہ میں چینی انجینئرز کے قافلے پر خودکش حملے میں پانچ چینی باشندوں سمیت چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

پاکستان،دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی ایک وجہ یہاں مقیم غیر قانونی تارکینِ وطن کو بھی قرار دیتا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں پاکستان نے غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔

خیبر پختونخوا کے سینئر انتظامی افسر ایڈیشنل چیف سیکریٹری عابد مجید نے دوسرے مرحلے کے آغاز کی تصدیق کی ہے۔

عابد مجید کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کے ٹھکانے کا پتا لگانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ان اداروں کو افغان سیٹیزن کارڈز رکھنے والوں کی تعداد، کاروبار اور دیگرکوائف جمع کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔

عابد مجید کے بقول دوسرے مرحلے میں افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کے لیے سروے جاری ہے اور یہ سروے 30 اپریل تک مکمل کر لیا جائے گا۔

عابد مجید کے بقول 2023 کے اواخر کے پہلے مرحلے میں دو لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کو طورخم بارڈر کے راستے بھیجا گیا ہے۔

اُن کے بقول افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے تاریخ مقرر نہیں کی گئی، تاہم موسمِ گرما کے آغاز میں یہ عمل شروع کیا جائے گا۔

یو این ایچ سی آر کا اظہارِ تشویش

اقوامِ متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) پاکستان سے افغان مہاجرین کی بے دخلی کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔

ادھر سرحد پار افغانستان میں اکتوبر اور نومبر 2023 میں پاکستان سے آنے والوں کی اکثریت کی بحالی ممکن نہیں ہوئی ہے۔

افغانستان میں برسر اقتدار طالبان حکومت نے نائب وزیر اعظم ملا عبدالسلام حنفی کی سربراہی میں اس حوالے سے ایک اعلٰی سطحی کمیشن قائم کر رکھا ہے۔

افغانستان میں وائس آف امریکہ کے سینئر صحافی اکرام شنواری نے بتایا کہ اس کمیشن نے پچھلے سال واپس پہنچنے والوں کو منزل مقصود تک لے جانے کے لیے دو ہزار کے لگ بھگ گاڑیوں کا انتظام کیا تھا۔

اُن کے بقول ان افراد کے لیے وقتی طور پر خوراک اور دیگر ضروری اشیا بھی فراہم کی گئی تھیں، لیکن ان کی آباد کاری اور بحالی کا عمل مکمل نہیں ہو سکا۔

افغان مہاجرین اپنے ملک واپس کیوں نہیں جانا چاہتے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:11 0:00

اکرام شنواری کے مطابق طالبان حکومت کو وسائل کی کمی کا سامنا ہے اور عالمی سطح پر تسلیم نہ کیے جانے کے باعث بیرونی امداد بھی نہیں مل رہی۔

افغانستان کے سرحدی صوبے ننگرہار کے رہائشی کفایت خان بھی حکومتِ پاکستان کے اس فیصلے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔

پشاور میں مقیم کفایت خان کہتے ہیں کہ وہ ان کے دو بھائی اور بہن پشاور میں زیرِ تعلیم ہیں۔ لہذٰا ان کے واپس جانے سے پڑھائی اُدھوری رہ جائے گی۔

اُن کے بقول اُن کے خاندان کے کچھ افراد ماضی کی افغان حکومت سے منسلک تھے، لہذٰا واپسی پر اُنہیں سیکیورٹی خطرات کا بھی سامنا ہو گا۔ لہذٰا حکومت اس فیصلے پر نظرِثانی کرے۔

افغانستان کے سرحدی علاقے درہ نور سے تعلق رکھنے والے نذر بیگ نامی شخص نے کہا کہ اب ان کی عمر 50 سے تجاوز کر چکی ہے۔

اُن کے بقول وہ جب پاکستان آئے تو اُن کی عمر آٹھ یا نو برس تھی۔ پشاور میں اُن کی شادی ہوئی اور اب بچے بھی یہیں جوان ہوئے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نذر بیگ کا کہنا تھا کہ اب اُن کے بچے افغانستان واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پشاور کے علاقے گل آباد گلبرگ میں مقیم گلاب سید کہتے ہیں کہ اُن کے کچھ رشتے دار چند برس قبل افغانستان گئے تھے۔ لیکن وہاں تعلیم، صحت اور دیگر ببیادی ضروریات نہ ہونے سے وہ پریشان ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG