رسائی کے لنکس

تین تارکین وطن ۔۔۔ تین کہانیاں: امریکی شہریت تک پہنچنے کا ان کا سفر


نیلوفر اور انور اخور اپنی سالگرہ کی تقریب میں، اکتوبر 2023 میں، پیٹرسن، نیوجرزی میں
نیلوفر اور انور اخور اپنی سالگرہ کی تقریب میں، اکتوبر 2023 میں، پیٹرسن، نیوجرزی میں
  • نیلوفر اخرور، ازبیکستان سے تعلق رکھنے والی ایک نرس اینستھیسیولوجسٹ، اور ان کے شوہر "گرین کارڈ لاٹری" پروگرام کے ذریعے امریکہ آئے۔
  • آشیش جین، ایک بھارتی ٹیک ایگزیکٹو، طالب علم ویزا پر امریکہ پہنچے۔
  • غرزئی اوریاخیل، سابق افغان فوجی ترجمان, خصوصی تارکین وطن کے ویزے پر آئے۔
  • ان کی کہانیاں اور ویزے دونوں متنوع ہیں

نیلوفر، اشیش اور اغرزئی، گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جنوبی اور وسطی ایشیا سے انے والے تارکیں وطن کی بڑھتی ہوئی لہر کا حصہ ہیں۔

مردم شماری بیورو کےحالیہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں رہنے والے تارکین وطن کی تعداد 2022 میں بڑھ کر 4 کروڑ ساٹھ لاکھ ہوگئی جو 2010 میں 2 کروڑ 90 لاکھ تھی۔

نیلوفر اخرور، ازبیکستان

امریکی محکمہ خارجہ کا ایک ’ڈائیورسٹی ویزا‘ پروگرام ہے، جسے عام بول چال میں گرین کارڈ لاٹری کے نام سے جانا جاتا ہے، ازبکوں اور دیگر وسطی ایشیائی باشندوں کے لیے امریکی امیگریشن کا بہترین راستہ ہے۔

اخرور کہتی ہیں کہ ان کا آبائی شہر سمرقند بڑی تعداد میں گرین کارڈ لاٹری جیتنے والوں کے لیے مشہور ہے۔

ان کی قسمت کا دروازہ 2003 میں کھلا۔ وہ اس غیر یقینی صورتحال میں گھری ہوئی جو بہت سے نئے گریجویٹس کو درپیش ہوتی ہے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کر رہی تھی۔ ایک دن، وہ گھر واپس آئی اور اسے اس وقت کے لیے نایاب چیز ملی - ایک پیکج جو ڈاک کے ذریعے پہنچا تھا۔

اس کے اندر امریکی محکمہ خارجہ کا ایک خط تھا جس میں اسے مطلع کیا گیا تھا کہ انہوں نے گرین کارڈ لاٹری جیت لی ہے، جو اس سال 1,819 خوش قسمت ازبیکوں نے جیتی تھی۔۔ وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں۔

"میں خوشی کے مارے اچھل رہی تھی،" انہوں نے یاد کیا۔ "میں بہت خوش تھی کہ میں امریکہ جا رہی ہوں۔"

لیکن جانا آسان نہیں تھا۔ ایک غیر شادی شدہ، 19 سال کی لڑکی!نیلوفر کے والدین نے انہیں اکیلےجانےکی اجازت نہیں دی۔

بھارت، آشیش جین

لیکن اس کے بعد کیا ہوا یہ جاننے سے پہلے ملتے ہیں آشیش جین سے، جو امریکہ میں جارجیا ٹیک میں صنعتی انجینئرنگ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے بہت سے خوابوں کے ساتھ سٹوڈنٹ ویزا پر 2007 میں اٹلانٹا پہنچے تھے۔ لیکن ان کی گریجویشن مالی بحران اور عظیم کساد بازاری کے آغاز کے ساتھ ہوئی۔

آشیش جین جارجیا ٹیک سے گریجویشن کے دن، دسمبر 2008، اٹلانٹا، جارجیا
آشیش جین جارجیا ٹیک سے گریجویشن کے دن، دسمبر 2008، اٹلانٹا، جارجیا

"یہ برا وقت تھا،" انہوں نے کہا۔

ان کی پہلی ملازمت کی پیشکش ختم ہوگئی۔ لیکن تین مہینوں کے اندرانہیں ایک اور موقع ملا جس سے انہیں امریکہ میں رہنے کی اجازت مل گئی کیونکہ کساد بازاری کے دوران کم ہی کمپنیاں H-1B ویزا کی درخواست کر رہی تھیں اس لیے ان کی ویزا کی درخواست کو تیزی سے منظور کر لیا گیا۔

"اس کے باوجود بہت سے تارکین وطن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ امریکی خواب کتنا طویل عمل ہو سکتا ہے۔" جین نے لفظ "طویل" پر زور دیتے ہوئے کہا۔

بھارتی زیادہ تر H-1B ویزا پر امریکہ آتے ہیں

بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے بھارتی طلباء کے لیے امریکہ ایک شاندار منزل ہے۔ 2023-2022 کےتعلیمی سال کے دوران امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے بھارتی طلباء کی تعداد تقریباً 2 لاکھ 70,000 کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی،

امریکہ میں رہنے والے بھارتی طلباء کی صحیح تعداد نامعلوم ہے۔ لیکن ان کی ایک قابل ذکر تعداد STEM مضامین کا مطالعہ کرتی ہے اور تین سال کی عملی تربیت سے فائدہ اٹھاتی ہے۔

مائیگریشن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی ایک سینئر تجزیہ کار جین بٹالووا کا کہنا ہے، "لہذا، یہ STEM طلباء شاید ابھی نہیں، لیکن وقت کے ساتھ، H-1B ویزا میں تبدیلی کے راستے تلاش کرتے ہیں۔"

H-1B ویزا پروگرام امریکی آجروں کو خصوصی پیشوں میں انتہائی ہنر مند غیر ملکی کارکنوں کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ کارکنوں کو گرین کارڈ کے لیے اسپانسر کر سکتے ہیں۔

پیشہ ورانہ تعلیم اور انگریزی زبان کی اپنی مہارت کی بدولت، بھارتی، H-1B ویزا پروگرام پر غالب ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، سال 2022 میں تمام H-1B درخواستوں میں سے 73فیصد بھارتی شہریوں کے حصے میں آئیں۔

گرین کارڈ کے لیے جین کی جدوجہد 14 سال پر محیط تھی۔ پھر وبا آئی اور ان کا خوش قسمت وقفہ۔

افغانستان۔۔ غرزئی اوریاخیل

اوریاخیل کا امریکہ کا سفر 2009 میں ان افغانوں کے لیے خصوصی امیگرنٹ ویزا پروگرام کے ساتھ شروع ہوا جو 15 سالوں کے دوران یہ پروگرام امیگریشن کا ایک اہم راستہ بن گیا ہے۔ یہ دسیوں ہزار افغانوں کو ویزا فراہم کرتا ہے جنہوں نے امریکی مشن کی مدد کی۔

اوریاخیل نے، جو اب 41 سال کے ہیں،2004 سے بگرام ایئر بیس پر ایک ترجمان کے طور پر 13 سال تک امریکی فوج کے لیے کام کیا۔ ان کی ذمہ داریاں ایک ثقافتی مشیر کے طور پر انہیں پورے افغانستان میں لے گئیں۔ تاہم وہ شاذ و نادر ہی جنگی مشنز پر گئے لیکن انہیں بہت سے خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا، "صوبہ پکتیا کے ضلع زرمت میں ہم تقریباً مارے ہی گئے تھےکیونکہ ہم طالبان کے گھیرے میں تھے، اور ہماری تمام کاریں اور گاڑیاں تباہ ہو گئی تھیں۔"

ان کا ایک کزن جو امریکی فوج کے لیے کام کرتا تھا، 2006 میں طالبان کے ہاتھوں پکڑا گیا اور اس کا سر قلم کر دیا گیا۔

اوریاخیل نے کہا، "وہ ان پہلے ترجمانوں میں سے ایک تھا جن کا طالبان نے سر قلم کیا تھا۔"

اپنی جان کے خوف سے اوریاخیل نے خصوصی تارکین وطن کے ویزے کے لیے دو بار درخواست دی، پہلی بار 2007 میں اور پھر 2010 میں۔ ان کی دوسری کوشش کے بعد انہیں سات سال انتظار کرنا پڑا جس دوران کی زندگی میں اہم تبدیلیاں ہوئیں۔ سنگل سے منگنی، پھر شادی، اور پھر دو بچوں کے باپ۔ لیکن ان کا امریکہ جانے کا ارادہ قائم رہا۔

"میں ہمیشہ اپنی اسٹیٹس کو اپ ڈیٹ کرتا رہتا تھا،" انہوں نے کہا۔

امریکہ آنےکے راستے

مائیگریشن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی جین بٹالووا کہتی ہیں کہ جنوبی اور وسطی ایشیائی باشندوں کے امریکہ میں امیگریشن کے راستے اتنے ہی متنوع ہیں جتنے کہ ان کی نقل مکانی کی وجوہات۔

جہاں افغان تارکین وطن کے خصوصی ویزا اور پناہ گزین پروگراموں پر انحصار کرتے ہیں، وہیں بہت سے وسطی ایشیائی گرین کارڈ لاٹری میں اپنی قسمت آزماتے ہیں۔

بھارتی عام طور پر ورک ویزا کو مستقل رہائشی اور پھرشہری بننے کے راستے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

پاکستانیوں اور بنگلہ دیشی زیادہ تر رشتہ داروں کی اسپانسر شپ سے گرین کارڈ حاصل کرتےہیں۔ تاہم راستے ہمیشہ قانونی نہیں ہوتے۔ پچھلے سال امریکی سرحدی ایجنٹوں نے جنوبی اور وسطی ایشیا سے دسیوں ہزاروں غیر دستاویزی تارکین وطن کا سامنا کیا تھا۔

نیلوفر اخرور نےجس دن گرین کارڈ لاٹری جیتی تھی اسی دن ان کا ایک ایسا رشتہ آیا جو ان کی جیت سے بے خبرتھے۔ انہوں نے اپنے ہونے والے شوہر انور سے ملاقات کی اور انہیں پسند کیا۔ شادی تیزی سے ہوئی اور جوڑااگلے سال امریکہ چلا گیا۔

انور نے مذاق میں کہا کہ گرین کارڈ جیتنے والی خاتون سے شادی کرنا دو بار جیک پاٹ ملنے کے مترادف تھا۔ انور نے کہا، ’’مجھے تب معلوم نہیں تھا کہ میں گرین کارڈ لے کر امریکہ آ رہا ہوں۔"

لیکن امریکہ میں پہلے دو سال چیلنجوں کے بغیر نہیں تھے۔ ان کے پاس کار نہیں تھی اور وہ نیویارک کے بروکلین کے علاقے میں میں ایک تنگ اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔ کوئی پیشہ ورانہ نوکری نہ ملنے کے بعد انور نے بل ادا کرنے کے لیے دیہاڑی پر طور پر کام کیا۔

آج وہ ہیج فنڈ کے لیے سافٹ ویئر ڈویلپر کے طور پر کام کرتا ہے۔

نیلوفر اور انور اخرور اپنے چار بچوں کے ساتھ فروری 2023 میں۔
نیلوفر اور انور اخرور اپنے چار بچوں کے ساتھ فروری 2023 میں۔

نیلوفریاد کرتی ہیں، "میں رویا کرتی تھی کہ میں گھر جانا چاہتی ہوں،" اور انور کہتے تھے "میں آپ کو یہاں نہیں لایا ہوں۔وہ تم ہی ہو جو مجھے یہاں لائی تھیں۔‘‘

اپنی اس خواہش میں نیلوفر اکیل نہیں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بہت سے ازبیک گرین کارڈ لاٹری کو امریکہ جانے کے لیے ایک عارضی ٹکٹ کے طور پر دیکھتے تھے تاکہ وطن واپسی سے پہلےوہ پیسے کماسکیں۔

اشیش جین کو موقع اس وقت ملاجب وبا نے پوری دنیا میں امریکی قونصل خانوں اور سفارت خانوں کو بند کرنے پر مجبور کردیا جس سے خاندانی بنیاد پر گرین کارڈ کی درخواستوں کو روک لیاگیا۔

انہوں نے کہا کہ "COVID کی وجہ سے، گرین کارڈز کی ایک بڑی تعداد دستیاب تھی۔ لہذااور میں خوش قسمت تھا کہ COVID کی وجہ سے مجھے گرین کارڈ مل گیا۔

جین نے کہا کہ اس عمل میں جہاں پہلے پانچ سال لگتے تھے اب 16 سے اوپر لگ سکتے ہیں۔ "قطار لمبی ہوتی جا رہی ہے۔"

طویل تاخیر کے باوجود، زیادہ تر بھارتی ملازمت کے ذریعے گرین کارڈ حاصل کرتے ہیں۔ تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 76 فیصد بھارتیوں نے گرین کارڈ کام کے ذریعے حاصل کیا، جس میں باقی تمام تارکین وطن کی شرح 27 فیصد ہے۔

اوریاخیل اب کہاں ہیں؟

افغانستان میں سات سال کے انتظار کے بعد اوریاخیل کو بالآخر ویزا جاری کیا گیا اور وہ اپریل 2017 میں لاس اینجلس پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ وہ خوش قسمت ہیں، لیکن بہت سے دوسرے لوگ جو "زندگی بچانے والے" تھے پیچھے رہ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگ خطرے میں ہیں۔ "انہیں وہاں نوکری نہیں مل سکتی، اور ان کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔"

پچھلے مہینے، کانگریس نے افغانوں کے لیے اضافی 12,000 خصوصی تارکین وطن کے لیے ویزوں کی منظوری دی ہے اور SIV پروگرام کو دسمبر 2025 تک بڑھا دیا۔ لیکن وکلاء کا کہنا ہے کہ 2021 میں کابل کے زوال کے بعد بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔

اپنی باری کے منتظر 140,000 سے زیادہ SIV درخواستوں کے ساتھ امریکہ میں امیگریشن بہت سے افغانوں کے لیے اب بھی ایک دور کا خواب بنی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG