رسائی کے لنکس

ڈونلڈ ٹرمپ بمقابلہ میرل سٹریپ، براستہ سوشل میڈیا


کیا آنے والے دنوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے برپا ہونے والی طاقتور تبدیلیاں دنیا کو پُرامن جگہ بنانے اور جمہوری آزادیوں کے حق کے استعمال کے درمیان درکار باریک توازن قائم رکھ سکیں گی؟ یا پہلے سے موجود فاصلوں کو مزید بڑھانے کا باعث بنیں گی؟

صدر اوباما آج رات شکاگو کے ’لیک فرنٹ کنوینشن سینٹر‘ میں امریکی عوام سے اپنا الوداعی خطاب کر رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی ایڈوائزر، ویلری جیریٹ نے کہا ہے کہ اوباما کا خطاب امریکی عوام کو یہ پیغام دے گا کہ ’’وہ آگے بڑھیں اور اپنی جمہوریت کے لئے جدوجہد کریں‘‘۔ مشیل اوباما گزشتہ روز یہ کہہ چکی ہیں کہ آنے والے ہفتوں میں ’’براک اپنا سب سے اہم کردار دوبارہ ادا کرنے کے لئے پرجوش ہیں۔۔ امریکی شہری کا کردار‘‘۔

کیا آنے والے دنوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے برپا ہونے والی طاقتور تبدیلیاں دنیا کو پُرامن جگہ بنانے اور جمہوری آزادیوں کے حق کے درمیان درکار باریک توازن قائم رکھ سکیں گی؟ یا پہلے سے موجود فاصلوں کو مزید بڑھانے کا باعث بن جائیں گی؟۔۔۔ اگر جمہوری آزادیوں کو بچانا اور دنیا کا امن قائم کرنا مقصد ہے، تو ان سوشل میڈیائی تبدیلیوں کے خد و خال میں عوام اور خواص کی انفرادی ذمہ داری کا حصہ کتنا ہوگا؟ یہ اور اس سے جڑے سب سوالوں کے جواب 2017ء کی اِس تیزی سے multipolar میں تبدیل ہوتی دنیا میں ابھی ماہرین کو تلاش کرنے ہیں۔

ہالی ووڈ کی اداکارہ، میرل سٹریپ نے اِس ہفتے2017ء​ کے ’گولڈن گلوب ایوارڈز‘ تقریب میں ’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘ وصول کیا، اور اپنے خطاب میں ایک ’حقیقی‘ پرفارمنس کا ذکر کرنا ضروری سمجھا؛ جس نے، بقول اُن کے، ’’میرا دل توڑ دیا‘‘۔ انہوں نے، بغیر نام لئے، نو منتخب امریکی صدر کا تذکرہ کیا، جنہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ’نیو یارک ٹائمز‘ کے ایک ایسے رپورٹر کا مذاق اڑایا تھا، جو جسمانی معذوری کا شکار ہے۔ میرل سٹریپ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’’جب ملک کے سب سے طاقتور عہدے کا حامل شخص اس طرح کسی کا مذاق اڑاتا ہے تو اس کے اثرات ہر شخص کی زندگی پر پڑتے ہیں، کیونکہ اس سے ہر شخص کو ایسا ہی کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ عدم احترام مزید عدم احترام کو دعوت دیتا ہے۔ تشدد مزید تشدد کی وجہ بنتا ہے۔ جب ایک طاقتور اپنی پوزیشن کو دوسروں کو دھمکانے کے لئے استعمال کرتا ہے تو شکست ہم سب کی ہوتی ہے‘‘۔

میرل سٹریپ نے اپنے خطاب میں ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ نامی تنظیم اور آزاد صحافت کی حمایت بھی کی؛ اور ’گولڈن گلوب ایوارڈ‘ کے لئے نامزد ہونے والے اور انہیں حاصل کرنے والے ان لوگوں کا خاص طور پر ذکر کیا جو دوسرے ملکوں سے آ کر ہالی ووڈ کے لئے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہالی ووڈ باہر سے آنے والوں اور غیر ملکیوں سے بھرا پڑا ہے اور اگر انہیں باہر نکال دیا جائے تو آپ کے پاس دیکھنے کو فٹ بال اور مکسڈ مارشل آرٹس ہی باقی رہ جائیں گے، جو آرٹ نہیں ہے‘‘۔

امریکہ کے پبلک ریڈیو، ’این پی آر‘ نے میریل سٹریپ کی تقریر کو نو منتخب امریکی صدر پر تنقید اور صحافتی آزادیوں کی وکالت کے لئے ’گولڈن گلوب‘ کی تاریخ کا سب سے طاقتور لمحہ قرار دیا۔

’سی این این‘ نے لکھا کہ میرل سٹریپ کا خطاب ایسا بھی غیر معمولی نہیں تھا۔ بہت سے اداکار ماضی میں سیاسی معاملوں پر اظہار خیال کے لئے ایوارڈز تقریبات کا فورم استعمال کرتے رہے ہیں۔

لیکن، نو منتخب امریکی صدر نے، جو 20 جنوری کو اپنی حلف برداری کے بعد امریکہ ہی نہیں، دنیا کے سب سے طاقتور شخص کہلائیں گے، اگلی ہی صبح امریکی اداکارہ کی کلاس لینے میں دیر نہیں لگائی۔

انہوں نے امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ سے فون پر ایک مختصر گفتگو میں کہا کہ انہوں نے میرل سٹریپ کی تقریر نہیں سنی۔ لیکن، وہ حیران نہیں ہیں؛ کیونکہ، بقول اُن کے، ’’آزاد خیال مووی والے‘‘ ان پر تنقید کرتے رہے ہیں۔

اس کے بعد، انہوں نے ٹویٹر کے ذریعے، میریل سٹریپ کو، جو امریکی فلمی انڈسٹری کی تاریخ میں سب سے زیادہ ایوارڈز کے لئے نامزد ہونے والی اداکارہ ہیں، ہالی ووڈ کی سب سے زیادہ ’’اوور ریٹڈ‘‘ اداکارہ اور ہیلری کلنٹن کی ’’مداح‘‘ قرار دے دیا۔

ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ وہ 100 بار بتا چکے ہیں کہ انہوں نے ’نیو یارک ٹائمز‘ کے رپورٹر سرگی کووالیسکی کا ’’مذاق نہیں اڑایا تھا‘‘۔ وہ صرف رپورٹر کو اپنی ’’برہمی‘‘ دکھا رہے تھے، کیونکہ، بقول ٹرمپ کے، رپورٹر نے ’’اپنی ایک 16 سال پرانی سٹوری کو مجھے برا دکھانے کے لئے تبدیل کر دیا تھا‘‘۔

امریکہ کے نو منتخب صدر کے لئے یہ ہفتہ یوں بھی بےحد اہم قرار دیا جا رہا ہے کہ امریکی حکومت کی اہم وزارتوں کے لئے ٹرمپ اپنے نامزد کردہ ماہرین کی امریکی سینیٹ سے سماعتوں کے منتظر ہیں اور ایک پریس کانفرنس سے خطاب بھی ان کے ایجنڈے میں شامل ہے۔

عالمی حالات میں تبدیلیوں کے لحاظ سے بھی یہ ہفتہ اہم ہے۔ امریکی خفیہ اداروں کی ان کلاسیفائیڈ رپورٹس، روسی صدر پوٹن کی جانب سے امریکی انتخابی نتائج پر براہ راست اثرانداز ہونے کے ’احکامات‘ کی تفصیلات جاری کر چکی ہیں۔ امریکہ کا فارن پالیسی میگزین اپنے ایک تازہ مضمون میں لکھ چکا ہے کہ ’’گزشتہ ایک سال سے دنیا کا ایجنڈا روس ڈکٹیٹ کروا رہا ہے‘‘۔

کم یانگ ان
کم یانگ ان

شمالی کوریا نے، جو اس سے قبل ٹرمپ کو مستقبل میں بات چیت کا راستہ کھلا رکھنے کا اشارہ دے چکا تھا، اسی ہفتے ’’کسی بھی وقت‘‘ ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل لانچ کرنے کی دھمکی دے دی ہے اور شمالی کوریا کی وزارتِ خارجہ نے اتوار کو ایک بیان میں شمالی کوریا کے میزائل پروگرام میں پیش رفت کے لئے ’’صرف اور صرف امریکہ کو موردِ الزام‘‘ ٹھہرایا ہے۔ اوباما انتظامیہ کے وزیر دفاع، ایش کارٹر امریکی چینل ’این بی سی‘ کے پروگرام ’میٹ دی پریس‘ میں اسے ایک ’’حقیقی دھمکی‘‘ قرار دے چکے ہیں۔

’شام کی صورتحال‘، ’مشرق وسطیٰ کا بحران‘، ’افغانستان کی جنگ‘ جیسے حقیقی چیلنج نو منتخب امریکی صدر کے عہدہ سنبھالنے سے صرف 10 دن کے فاصلے پر ہیں۔ ایسے میں، واشنگٹن کے ماہرین نو منتخب امریکی صدر کے ہالی ووڈ شخصیات کی خود پر کی گئی تنقید کو اس سنجیدگی سے لینے پر فکرمندی اور تشویش کا شکار ہیں۔

ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران اور صدر منتخب ہونے کے بعد بھی اکثر یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ روایتی امریکی میڈیا پر بھروسا نہیں کرتے۔

امریکی شہریوں اور میڈیا تک ٹرمپ کے زیادہ تر بیانات ٹویٹر کے ذریعے ہی پہنچتے ہیں، جس میں ہر مدعی اور مدعا علیہ کو اظہار خیال کے لئے 140 ’کیریکٹرز‘ یا ’حروف‘ کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر خبر کے روایتی ذرائع پر امریکی صدر کا عدم اعتبار اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کے ذریعے عام امریکیوں تک براہ راست پہنچنے کی حکمت عملی کو روایتی میڈیا کے لئے خطرے کی گھنٹی نہ بھی سمجھا جائے تو بھی اس سوال کو نظرانداز کرنا مشکل ہے کہ امریکہ کی اہم پالیسیاں اب سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر طے پائیں گی؟

کیا امریکہ کا آئیندہ صدر کسی ملک کے خلاف اعلانِ جنگ یا جوابی جنگ کرنے کا فیصلہ اپنے ہی جیسے کسی غیر ملکی رہنما کی ٹویٹ کی روشنی میں بھی کر سکتا ہے؟

امریکی میڈیا، سیاست اور سماجیات کے بعض ماہرین سوشل میڈیا کے ذریعے طے پانے والے اس رجحان کو ’ایجنڈا ڈکٹیٹ‘ یا ’مسلط‘ کرنے کے حوالے سے تشویشناک پیش رفت قرار دے رہے ہیں، جو، بقول اُن کے، ’’جدید پراپیگنڈہ کے بانی گوئیبل کے گمان میں بھی نہیں آئی ہو گی‘‘۔

XS
SM
MD
LG