رسائی کے لنکس

امریکہ اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی معاہدے پر دستخط


دوطرفہ سکیورٹی معاہدے کے بعد توقع ہے کہ 2014ء کے اختتام پر افغانستان سے بین الاقوامی لڑاکا افواج کے انخلا کے بعد نیٹو کے 12 ہزار فوجی وہاں رہیں گے جن میں سے 9,800 امریکی فوجی ہوں گے۔

افغانستان اور امریکہ کے عہدیداروں نے منگل کو دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے تحت 2014ء کے بعد بھی یہاں امریکی فوجی رہ سکیں گے۔

اشرف غنی کے منصب صدارت سنبھالنے کے ایک روز بعد اس دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمار اور امریکہ کے سفیر جیمز کننگھم نے دستخط کیے۔

تقریب کے بعد صدر اشرف غنی نے کہا کہ بطور ایک آزاد ملک کے، دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط افغان عوام، خطے اور دنیا کے استحکام اور خوشحالی کے لیے کیے گئے۔

اشرف غنی کے پیش رو حامد کرزئی نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد افغانستان کے امریکہ سے تعلقات میں تناؤ بھی دیکھا گیا۔

دو طرفہ سکیورٹی معاہدے کے بعد توقع ہے کہ 2014ء کے اختتام پر افغانستان سے بین الاقوامی لڑاکا افواج کے انخلا کے بعد نیٹو کے 12 ہزار فوجی وہاں رہیں گے جن میں سے 9,800 امریکی فوجی ہوں گے۔

افغانستان میں رہنے والے امریکی فوجیوں کی ذمہ داری مقامی افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت اور شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں اُن کی معاونت ہو گی۔

پاکستان میں دفاعی تجزیہ کار امریکہ اور افغانستان کے درمیان سلامتی کے معاہدے کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ ائیر وائس مارشل ریٹائرڈ شہزاد چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان میں نیٹو افواج کی اس وقت موجودگی خطے میں سلامتی کی صورت حال کے لیے مفید ہو گی۔

’’میرے خیال میں تویہ بہت اہم ہے، اگر فوجیں وہاں رہتی ہیں تو اُن سے کسی نا کسی حد تک افغان سکیورٹی فورسز کو مدد اور رہنمائی ملتی رہے گی۔‘‘

افغان صدر اشرف غنی نے پیر کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد طالبان سے کہا تھا کہ وہ امن بات چیت میں شامل ہوں۔ انتخابات کے نتائج پر پیدا ہونے والے تنازع کے حل کے لیے شراکت اقتدار کا معاہدہ طے پانے کے بعد اشرف غنی کے مد مقابل اُمیدوار عبداللہ عبداللہ کو ملک کا چیف ایگزیکٹو بنایا گیا۔

امریکہ نے افغانستان کے دو طرفہ سکیورٹی معاہدے کو دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹیجک شراکت داری کی مضبوطی کی جانب اہم قدم قرار دیا۔

اس دو طرفہ سکیورٹی معاہدے سے متعلق دونوں ملکوں کے درمیان نومبر 2012ء میں بات چیت شروع ہوئی تھی اور مئی 2013ء اس پر اتفاق بھی ہو گیا تھا لیکن اُس وقت کے صدر حامد کرزئی نے اس پر دستخط نہیں کیے۔

بعد میں افغان صدارتی انتخابات کے نتائج کے معاملے پر اختلافات بھی اس معاہدے پر دستخطوں میں تاخیر کا سبب بنے۔

XS
SM
MD
LG