رسائی کے لنکس

مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک: کب کیا ہوا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے نام سے 14 اگست 1947 کو جو ملک وجود میں آیا وہ جغرافیائی طور پر مشرقی و مغربی حصوں میں تقسیم تھا۔ پاکستان کے ان دونوں حصوں میں 15 سو کلو میٹر کا فاصلہ تھا۔

اگرچہ پاکستان کے قیام کا مطالبہ کرنے والی مسلم لیگ کی بنیاد مشرقی بنگال میں رکھی گئی تھی لیکن پاکستان کا یہ حصہ تاریخی اسباب کی وجہ سے سیاسی و سماجی اور ثقافتی سطح پر مغربی حصے سے مختلف تھا جو بعد میں اختلافات کا باعث بنا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔

ابتدا میں پاکستان کے مشرقی صوبے کا نام مشرقی بنگال ہی تھا جو ون یونٹ کے قیام کے وقت مشرقی پاکستان کر دیا گیا تھا۔

رواں برس 16 دسمبر کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے 50 برس مکمل ہو رہے ہیں۔ ذیل میں قیامِ پاکستان کے بعد پیش آنے والے ان سلسلۂ واقعات کا مختصر ذکر کیا جا رہا ہے جو بالآخر پاکستان کے دونوں حصوں کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کی صورت میں ایک نئے ملک کے قیام کا سبب بنے۔

25 فروری، 1948

مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو رکن دھریندر ناتھ دتا نے متحدہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی کارروائی میں اردو کے ساتھ بنگالی کے استعمال کے لیے قواعد میں ترمیم کرنے کی تحریک پیش کی۔ اس کے جواب میں وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے کہا کہ پاکستان کے لیے جدوجہد برصغیر کے 10 کروڑ مسلمانوں نے کی تھی جن کی زبان ان کے بقول اردو تھی اور ایوان نے یہ تحریک مسترد کردی۔

بنگالی زبان سے متعلق ایوان میں پیش کی گئی تحریک مسترد ہونے کی خبر جب ڈھاکہ پہنچی تو اس پر شدید ردِ عمل سامنے آیا۔ اس کے بعد جب مشرقی بنگال کے وزیرِ اعلیٰ خواجہ ناظم الدین نے بھی اردو کو قومی زبان بنانے کے حق میں بیان دیا تو صوبے میں احتجاج شروع ہو گیا۔

جنوری 1948 میں شیخ مجیب طلبہ تنظیم 'ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹ لیگ' کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ اس تنظیم نے بنگالی زبان کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

فروری کے اختتام تک قومی زبان کے معاملے پر مشرقی پاکستان میں بے چینی بڑھنے اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے باقاعدہ تحریک چلانے کے لیے ایکشن کمیٹی بھی تشکیل دے دی تھی۔

مارچ، 1948

بنگالی زبان کا مسئلہ تنازع کی شکل اختیار کر گیا۔ مشرقی بنگال میں طلبہ نے پہلا احتجاج کیا۔ 11 مارچ کو بنگالی کو قومی زبان قرار دینے کے حق میں مظاہرہ کرنے والے طلبہ پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔

احتجاج کی شدت بڑھنے کے بعد وزیرِ اعلیٰ خواجہ ناظم الدین نے طلبہ کی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کیے اور ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدے میں بنگالی کو مشرقی بنگال میں سرکاری اور تعلیمی زبان بنانے پر آمادگی ظاہر کی گئی۔

اس معاہدے میں بنگالی کو ریاستی زبان بنانے کے لیے دستور ساز اسمبلی میں قرار داد پیش کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔

مشرقی بنگال کی اسمبلی سے تو وعدے کے مطابق بنگالی کے حق میں قرار داد منظور کرلی گئی لیکن ایکشن کمیٹی سے ہونے والے وعدے کے مطابق مرکزی اسمبلی میں قرار داد پیش نہیں کی جاسکی۔

مارچ کے تیسرے ہفتے میں محمد علی جناح ڈھاکہ پہنچنے والے تھے اور ان کا تاثر تھا کہ خواجہ ناظم الدین نے یہ طلبہ کے دباؤ میں آکر مطالبات تسلیم کیے ہیں۔ ان کے نزدیک مشرقی بنگال اسمبلی کی بنگالی کے معاملے پر منظور کی گئی قرارداد کا اطلاق مرکزی حکومت پر نہیں ہوتا تھا۔

31 مارچ، 1948

بانیٔ پاکستان محمد علی جناح نے ڈھاکہ کا دورہ کیا اور ریس کورس میدان میں خطاب کرتے ہوئے اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا۔ 26 مارچ کو ڈھاکہ سے واپسی پر ریڈیو سے خطاب میں انہوں نے ایک بار پھر اپنے اس بیان کا اعادہ کیا۔ محمد علی جناح کے اس بیان پر مشرقی پاکستان کے بعض حلقوں نے کڑی تنقید کی۔

30 جون، 1948

مسلم لیگ بنگال میں خواجہ ناظم الدین اور متحدہ بنگال کے سابق وزیرِ اعلیٰ حسین شہید سہروردی کے درمیان سیاسی چپقلش پائی جاتی تھی۔ اسی طرح مولانا عبدالحمید بھاشانی کے مسلم لیگ کی قیادت کے ساتھ اختلافات بڑھ گئے تھے۔

فروری 1948 میں بنگال مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کے بعد یہ مولانا بھاشانی، فضل الحق اور دیگر رہنماؤں نے مسلم لیگ سے علیحدگی کا اعلان کر کے نئی جماعت 'عوامی مسلم لیگ' کی بنیاد رکھی۔

شیخ مجیب الرحمٰن اس وقت ایک طالب علم رہنما تھے اور بنگالی زبان تحریک کی وجہ سے جیل میں تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں انہیں عوامی مسلم لیگ کا جوائنٹ سیکریٹری منتخب کیا گیا۔

14 ستمبر، 1948

محمد علی جناح کے انتقال کے بعد مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی رہنما خواجہ ناظم الدین ملک کے دوسرے گورنر جنرل بنے۔

26 جنوری، 1952

خواجہ ناظم الدین نے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد وزیرِ اعظم بن گئے اور سینئر بیوروکریٹ اور پاکستان کے پہلے وزیرِ خزانہ غلام محمد کو گورنر جنرل بنا دیا۔وزیرِ اعظم بننے کے بعد انہوں نے ایک بار پھر اردو کو قومی زبان قرار دینے کا اعلان کیا۔

21 فروری، 1952

خواجہ ناظم الدین کے بیان کے خلاف مشرقی بنگال میں ہڑتال ہوئی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ کے ایک جلوس کا پولیس سے تصادم ہوا جس میں آٹھ طلبہ ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس تصادم میں ہلاک ہونے والے طلبہ کی یاد میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں ’شہید مینار‘ تعمیر کیا گیا۔ بعد میں اقوامِ متحدہ نے 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دے دیا۔

فروری 1952

شدید احتجاج کے بعد مشرقی بنگال اسمبلی نے اردو کے ساتھ بنگلہ کو بھی قومی زبان بنانے کی قرارداد منظور کر لی۔

4 دسمبر، 1954

مشرقی بنگال کے انتخابات سے قبل حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی اور شیخ مجیب کی عوامی لیگ، فضل الحق کی کرشک سرامک پارٹی، بائیں بازوں کی جماعت گناتنتری دل اور نظامِ اسلام پارٹی نے متحدہ محاذ یا 'جگتو فرنٹ' کے نام سے چار جماعتی انتخابی اتحاد بنایا۔

مختلف فکر سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے اس اتحاد نے 21 نکاتی پروگرام پر اتفاق کیا تھا جس میں بنگالی کو سرکاری زبان بنانے اور 1940 کی قراردادِ لاہور کے مطابق صوبائی خود مختاری جیسے مطالبات شامل تھے۔

مشرقی بنگال کے صوبائی انتخابات میں جگتو فرنٹ کو کامیابی حاصل ہوئی اور ملک کی بانی جماعت مسلم لیگ کو شکست ہوئی۔

اپریل، 1954

شیرِ بنگال اے کے فضل حق جگتو فرنٹ کی حکومت کے وزیرِ اعلیٰ بنے۔ واضح رہے کہ اے کے فضل حق نے 23 مارچ 1940 کی قراردادِ لاہور پیش کی تھی۔

15 مئی، 1954

عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمٰن جگتو فرنٹ کی حکومت کی کابینہ میں بطور وزیر شامل ہوئے۔ وہ کابینہ کے سب سے کم عمر وزیر تھے اور انہیں زراعت و جنگلات کے قلم دان دیے گئے۔

صوبائی انتخابات کے بعد سے مشرقی بنگال میں بنگالی اور غیر بنگالی آبادی کے درمیان تلخیاں بڑھنا شروع ہوگئی تھیں۔ نارائن گنج کی آدم جی جوٹ ملز میں دو مزدوروں کے درمیان لڑائی کے بعد خون ریز فسادات شروع ہو گئے۔ یہ ملز مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سرمایہ دار خاندان کی ملکیت تھی۔ اس کے علاوہ دیگر علاقوں میں بھی غیر بنگالیوں کے قتلِ عام کے واقعات پیش آئے۔

29 مئی، 1954

گورنر جنرل غلام محمد کی مرکزی حکومت نے مشرقی بنگال کی صوبائی حکومت برطرف کر کے گورنر راج نافذ کردیا۔ آدم جی جوٹ ملز میں ہونے والے فسادات بعد امن و امان کی صورت حال قابو کرنے میں ناکامی اور وزیر اعلیٰ اے کے فضل الحق کے بھارت سے ساتھ مل کر متحدہ بنگال بنانے کی سازشوں کے الزامات کو صوبائی حکومت کی برطرفی کی وجہ بتایا گیا۔

مشرقی بنگال کا وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد اے کے فضل الحق نے بھارت میں مغربی بنگال کا دورہ کیا جس میں انہوں ںے بنگال کی تقسیم پر اظہارِ افسوس کیا تھا۔ مرکزی حکومت نے ان کے اس بیان کو متحدہ بنگال بنانے کی خواہش اور ملکی سالمیت کے خلاف قرار دیا۔

21 جون، 1955

شیخ مجیب الرحمٰن پہلی مرتبہ دستور ساز اسمبلی کے رکن بنے۔

اسکندر مرزا۔ فائل فوٹو
اسکندر مرزا۔ فائل فوٹو

6 اکتوبر، 1955

میجر جنرل اسکندر مرزا پاکستان کے گورنر جنرل بن گئے۔

14 اکتوبر، 1955

ون یونٹ کا قیام عمل میں آیا جس کے بعد بلوچستان، سرحد، پنجاب اور سندھ کو ملا کر 'مغربی پاکستان' کے نام سے ایک نیا صوبہ بنا دیا گیا اور مشرقی بنگال کا نام تبدیل کر کے 'مشرقی پاکستان' کر دیا گیا۔ اس اقدام کی ملک کے دونوں حصوں میں مخالفت کی گئی تھی۔

فروری، مارچ 1956

29 فروری کو پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا جس کا نفاذ 23 مارچ 1956 کو ہوا۔

4 مارچ، 1956

آئین کی منظوری کے بعد اسکندر مرزا صدر بن گئے اور چوہدری محمد علی وزیرِ اعظم رہے۔

9 مارچ، 1956

اے کے فضل حق کو مشرقی بنگال کا گورنر بنا دیا گیا۔

12 ستمبر، 1956

بنگال کے مقبول رہنما حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیرِ اعظم بنے۔

3 اپریل، 1957

مشرقی پاکستان اسمبلی میں مکمل صوبائی خود مختاری کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور ہوئی۔

11 اکتوبر، 1957

صدر اسکندر مرزا نے وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی سے استعفیٰ لے لیا۔

9 جون، 1958

صدر اسکندر مرزا نے پاکستان کی برّی افواج کے کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر دی۔

7 اکتوبر 1958

آئین سازی کے بعد 1957 میں انتخابات منعقد ہونا تھے جنہیں اسکندر مرزا نے صدر بننے کے بعد 1959 تک ملتوی کر دیا تھا۔ انتخابات کی صورت میں انہیں اپنے منصبِ صدارت سے ہاتھ دھونے کا خدشہ درپیش تھا۔ اس لیے انتخابات مزید ملتوی کرنے کے لیے انہوں نے سات اکتوبر 1958 کو ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔

27 اکتوبر، 1958

فوج کے دباؤ پر اسکندر مرزا صدارت سے مستعفی ہوگئے اور اقتدار مکمل طور پر ایوب خان کے ہاتھ میں چلا گیا۔ مارشل لا میں سیاسی سرگرمیوں اور طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کردی گئی۔ مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی اور شیخ مجیب الرحمٰن سمیت سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا۔

جنوری 1960

ایوب خان نے ’بیسک ڈیموکریٹس‘ سے اعتماد کا ووٹ لیا اور صدر منتخب ہوگئے۔ ایوب خان نے اس سے قبل ملک میں بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا تھا۔

17 فروری، 1960

ایوب خان نے پارلیمانی نظامِ حکومت کی 'ناکامی' کے بعد ملک میں نئے نظام حکومت کی تشکیل کے لیے جسٹس شہاب الدین کی سربراہی میں ایک آئینی کمیشن بنایا۔ کمیشن نے اس سلسلے میں تجاویز جمع کرنا شروع کر دیں۔

ایوب خان مستقبل کے آئین سے متعلق اپنی رائے پہلے ہی واضح کرچکے تھے۔ ایوب خان ایک ایسا نظامِ حکومت چاہتے تھے جس میں مرکزی حکومت ہو اور سیاسی جماعتوں کا وجود نہ ہو۔ دوسری جانب مشرقی پاکستان میں پارلیمانی نظامِ حکومت اور زیادہ سے زیادہ علاقائی خود مختاری کی حمایت بڑھنے لگی۔

اپریل، مئی 1960

قومی و صوبائی اسمبلیوں کے غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کی بحالی کے لیے قانون سازی پر اختلافات بھی زور پکڑنے لگے۔ مارشل لا کے نفاذ کے بعد مشرقی و مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ شروع کر دیا۔

30 جنوری، 1962

حسین شہید سہروردی کو ’ریاست مخالف‘ سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ شیخ مجیب اور عوامی لیگ کے دیگر رہنماؤں کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔

8 جون، 1962

صدر ایوب کی حکومت نے پاکستان میں ایک اور آئین کا نفاذ کیا۔ ماضی کے مقابلے میں یہ آئین صدارتی نظامِ حکومت پر مبنی تھا اور اس میں صدر کو اختیارات کا محور بنایا گیا تھا۔ اس آئین میں ملک کے نام سے اسلامی ہٹا کر 'جمہوریہ پاکستان' کر دیا گیا تھا۔

جنوری 1964

شیخ مجیب کی کوششوں سے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ بحال ہو گئی اور وہ اس کے جنرل سیکریٹری بن گئے۔ اس پارٹی نے مشرقی پاکستان کے لیے مکمل صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کر دیا جس میں مرکزی حکومت کے لیے صرف دفاع، وزارتِ خارجہ اور کرنسی کے شعبے رکھنے کی تجویز دی گئی تھی۔

جون 1964

عوامی لیگ نے 11 نکاتی منشور پیش کیا اور اس کے حق میں مشرقی پاکستان میں بھرپور مہم چلائی۔ بعد ازاں 1966 میں شیخ مجیب کے چھ نکاتی پروگرام میں ان مطالبات کو شامل کرلیا گیا۔

2 جنوری، 1965

ملک میں صدارتی انتخابات ہوئے اور ایوب خان کے مقابلے میں اپوزیشن نے فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ ایوب خان صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوئے۔ البتہ مشرقی پاکستان میں فاطمہ جناح کو 47 فی صد ووٹ ملے۔

6 ستمبر، 1965

پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ۔ مشرقی پاکستان میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں دخل اندازی کی مخالفت کی گئی اور مشرقی پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر جنگ کے آغاز پر بھی تنقید سامنے آئی۔

10 جنوری، 1966

پاکستان اور بھارت کے درمیان معاہدۂ تاشقند ہوا۔ مغربی پاکستان میں اس معاہدے پر احتجاج جب کہ مشرقی حصے میں خیر مقدم کیا گیا۔

فروری 1966

مغربی پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی معاہدۂ تاشقند پر قومی کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس میں شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان کے مطالبات پر مبنی چھ نکات پیش کیے لیکن کانفرنس میں شریک دیگر اپوزیشن جماعتوں نے ان پر بحث سے انکار کردیا۔

چھ نکات

شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات میں ملک کے لیے 1940 کی قراردادِ لاہور کے مطابق متفقہ آئین کی منظوری اور بالغ حقِ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کرانے کا مطالبہ سرِفہرست تھا۔

وفاق کو صرف دفاع اور خارجہ امور دینے کی بات کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ ملک کے مشرقی و مغربی حصوں کے لیے الگ الگ مرکزی بینکوں کے قیام، محصولات اور دیگر ذرائع آمدن صوبوں کے حوالے کرنے اور دونوں حصوں کے لیے علیحدہ علیحدہ زرِ مبادلہ کے ذخائر رکھنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ علیحدہ علیحدہ کرنسی جاری کرنے کی تجویز بھی دی گئی تھی۔

مشرقی و مغربی پاکستان کے لیے علیحدہ فوج یا نیم فوجی فورس کے قیام اور پاکستان بحریہ کا ہیڈکوارٹر مشرقی پاکستان منتقل کرنے کے مطالبات بھی چھ نکات میں شامل تھے۔

16 مارچ، 1966

ایوب خان نے شیخ مجیب کے پیش کردہ چھ نکات کو خود مختار بنگال کے حصول کا خواب قرار دے دیا۔

جون 1966

ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ سے مستعفی ہو گئے۔ وہ ایوب خان کی کابینہ میں وزیرِ خارجہ رہے تھے۔

30 نومبر، 1967

ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کے نام سے نئی سیاسی جماعت قائم کی۔

جنوری 1968

شیخ مجیب اور 35 دیگر سول اور عسکری اہل کاروں پر بھارت کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش کرنے کا الزام لگا۔ اسے اگرتلہ سازش کے نام سے جانا جاتا ہے۔

9 مئی، 1968

اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار شیخ مجیب اور دیگر ملزمان کو عارضی طور پر رہا کر دیا گیا۔

7 نومبر، 1968

ایوب خان نے 1968 میں اپنی حکومت کے دس سال مکمل ہونے پر انہیں 'خوشحالی' کے دس سال کے طور پر منایا۔ اس سلسلے میں ملک بھر میں تقریبات کا انعقاد بھی کیا گیا اور ساتھ ہی ملک میں حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ اس احتجاج میں طلبہ پیش پیش تھے۔

سات نومبر کو راولپنڈی میں ایسے ہی ایک احتجاج کے دوران طلبہ اور پولیس کے درمیان ایک تصادم ہوا جس نے اس احتجاجی لہر کو ایوب خان کے خلاف تحریک میں بدل دیا۔

13 نومبر، 1968

ایوب خان کے خلاف تحریک شدت اختیار کر گئی جس کے بعد حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو، عبدالولی خان اور دیگر سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کرلیا۔

ذوالفقار علی بھٹو۔ فائل فوٹو
ذوالفقار علی بھٹو۔ فائل فوٹو

نومبر، دسمبر 1968

ایوب خان کے خلاف احتجاج میں ہلاکتیں ہوتی ہیں اور ملک کے دونوں حصوں میں حالات کنٹرول سے باہر ہونے لگتے ہیں۔

5 فروری، 1969

ایوب خان نے اپوزیشن جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دی۔

17 فروری، 1969

پاکستان اور بھارت کی جنگ کے دوران نافذ کیے گئے ہنگامی حالات کے خاتمے کا اعلان کیا گیا اور بھٹو اور ولی خان سمیت گرفتار سیاست دانوں کو رہا کر دیا گیا۔

22 فروری، 1969

شیخ مجیب نے ڈھاکہ میں بالغ حقِ رائے دہی کی بنیاد پر براہِ راست انتخابات اور اپنے چھ نکات کی بنیاد پر صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کیا۔

فروری، مارچ 1969

اس دوران ایوب خان اور سیاسی قیادت کے درمیان مذاکرات کے لیے گول میز کانفرنس کا سلسلہ شروع ہوا جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکا۔

24 مارچ، 1969

صدر ایوب خان نے پاکستان آرمی کے کمانڈر ان چیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو خط لکھ کر ملکی امور اپنے اختیار میں لینے کی درخواست کی۔

25 مارچ، 1969

یحییٰ خان نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھال لیا اور 1962 کا آئین منسوخ کردیا۔

اپریل 1969

یحییٰ خان نے مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان سیاسی ڈیڈ لاک دور کرنے کے لیے سیاسی قیادت سے بات چیت کا آغاز کیا۔

28 نومبر، 1969

یحییٰ خان نے پانچ اکتوبر 1970 کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پاکستان کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔

1 جنوری، 1970

ملک میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے دی گئی۔ جس کے ساتھ ہی ملک میں انتخابی مہم کا آغاز ہو گیا۔ اسے پاکستان کی تاریخ کی طویل ترین انتخابی مہم بھی قرار دیا جاتا ہے جو لگ بھگ ایک سال تک جاری رہی۔ شیخ مجیب نے 1970 کے عام انتخابات کی مہم کے لیے اپنے چھ نکات کو بنیاد بنایا۔

30 مارچ، 1970

یحییٰ خان نے مغربی پاکستان کا صوبہ تحلیل کر دیا جس کے بعد مغربی حصے میں چار صوبے وجود میں آ گئے۔ یحییٰ خان نے لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) نافذ کردیا جس میں صوبوں کی قومی اسمبلی میں نمائندگی اور دیگر انتخابی قواعد کی تفصیلات شامل تھیں۔ ایل ایف او میں منتخب ہونے والی دستور ساز اسمبلی کو 120 دنوں کے اندر آئین بنانے کا پابند کیا گیا تھا۔

شیخ مجیب الرحمن (فائل فوٹو)
شیخ مجیب الرحمن (فائل فوٹو)

12 نومبر، 1970

مشرقی پاکستان میں تباہ کن سمندری طوفان آیا جس میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔

7 دسمبر، 1970

پاکستان کے پہلے عام انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی 162 میں سے 160 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ مغربی پاکستان کی 138 میں سے 81 نشستیں پیپلز پارٹی نے جیتیں۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد عوامی لیگ کو دستور ساز اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل ہو گئی۔

3 جنوری، 1971

شیخ مجیب نے ڈھاکہ کے ریس کورس میدان میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہمیں اب کوئی چھ نکات کی بنیاد پر آئین بنانے سے نہیں روک سکتا۔

انتخابی نتائج کے بعد شیخ مجیب اور بھٹو میں سیاسی اختلافات بڑھنے لگے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک وفاقی نظامِ حکومت کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے اور واضح کر چکے تھے کہ پیپلز پارٹی کے بغیر مرکز میں بننے والی کوئی حکومت کام نہیں کر سکے گی۔

شیخ مجیب کا مؤقف تھا کہ وہ مرکز اور صوبے میں تنہا حکومت بنائیں گے اور آئین سازی کی بنیاد ان کے پیش کردہ چھ نکات ہی ہوں گے۔

جنوری 1971

صدر یحییٰ خان نے شیخ مجیب کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن متعدد کوششوں کے باوجود شیخ مجیب نے بات چیت کے لیے مغربی پاکستان آنے سے انکار کر دیا۔ جنوری 1971 کے دوسرے ہفتے میں یحییٰ خان نے ڈھاکہ پہنچ کر شیخ مجیب سے ملاقاتیں کیں۔

14 جنوری، 1971

ڈھاکہ سے واپسی پر یحییٰ خان نے شیخ مجیب کو مستقبل کا وزیرِ اعظم قرار دیا۔

17 جنوری، 1971

یحییٰ خان بھٹو کی دعوت پر شکار کھیلنے دیگر اعلیٰ فوجی افسران کے ہمراہ لاڑکانہ گئے۔

27 جنوری، 1971

ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے وفد نے ڈھاکہ میں شیخ مجیب سے تین روزہ مذاکرات کیے۔

11 فروری، 1971

ذوالفقار علی بھٹو نے صدر یحییٰ خان سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ عوامی لیگ آئین کا مسودہ تیار کر چکی ہے جسے وہ بہ آسانی قومی اسمبلی سے منظور کرا سکتی ہے۔ بھٹو نے اس ملاقات میں صدر یحییٰ خان کو مشورہ دیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس مارچ کے آخر تک نہ بلایا جائے۔

13 فروری، 1971

صدر یحییٰ خان نے تین مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے کا اعلان کر دیا۔

15 فروری، 1971

ذوالفقار علی بھٹو نے پشاور میں اعلان کیا کہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی۔ بھٹو کے اس فیصلے پر عوامی لیگ کے مخالفین نے بھی تنقید کی۔ مغربی پاکستان میں سوائے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے سبھی جماعتوں نے اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا۔

19 فروری، 1971

صدر یحییٰ خان اور ذوالفقار بھٹو کی ملاقات ہوئی جو پانچ گھنٹے تک جاری رہی۔

20 فروری، 1971

یحییٰ خان کے نافذ کردہ ایل ایف او میں ترمیم کر دی گئی جس کے بعد رکن اسمبلی کو حلف اٹھانے سے قبل مستعفی ہونے کا اختیار دے دیا گیا۔ ایل ایف او میں ترمیم سے قبل ارکان پر استعفیٰ دینے سے پہلے اجلاس میں شریک ہو کر حلف اٹھانے کی شرط عائد کی گئی تھی۔

بھٹو اپنی جماعت کے ارکانِ اسمبلی سے پہلے ہی استعفیٰ لے کر اپنے پاس رکھ چکے تھے اور اس ترمیم کے بعد وہ اپنے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی رکن کا استعفیٰ الیکشن کمیشن کو بھجوا سکتے تھے۔

ڈھاکہ یونیورسٹی میں بنگالی زبان تحریک کی یاد میں قائم شہید مینار۔
ڈھاکہ یونیورسٹی میں بنگالی زبان تحریک کی یاد میں قائم شہید مینار۔

28 فروری، 1971

صدر یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا طلب کیا گیا اجلاس ملتوی کر دیا۔

4 مارچ، 1971

اس فیصلے پر مشرقی پاکستان میں شدید ردِعمل سامنے آنے کے بعد صدر یحییٰ خان نے 10 مارچ کو آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے سوا دیگر جماعتوں نے کانفرنس مین شرکت سے انکار کر دیا۔

5 مارچ، 1971

مشرقی پاکستان کے گورنر صاحبزادہ یعقوب خان مستعفی ہو گئے۔ اسی روز یحییٰ خان نے ریڈیو سے خطاب کرتے ہوئے 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا اعلان بھی کیا۔

7 مارچ، 1971

شیخ مجیب نے جلسۂ عام میں فی الفور مارشل لا ختم کرنے اور اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے مطالبات پورے نہ ہونے تک کاروبارِ حکومت بند کرنے کا اعلان کیا۔

اس اعلان کے بعد مشرقی پاکستان میں حکومتی رٹ عملاً ختم ہو گئی۔ مشرقی پاکستان میں حالات کشیدہ ہونے کے بعد بڑی تعداد میں مقامی آبادی کی نقل مکانی کا آغاز ہوا اور بھارت نے اپنی سرحد پناہ گزینوں کے لیے کھول دی۔

14 مارچ، 1971

یحیی خان نے مشرقی پاکستان روانہ ہونے سے قبل ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی جس کے بعد بھٹو نے مطالبہ کیا کہ ملک کے دونوں حصوں میں اقتدار اکثریتی جماعت کو منتقل کر دیا جائے۔ مغربی پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھٹو کے مطالبے کو پاکستان کی تقسیم کے مترادف قرار دیا اور اس کی مخالفت کی۔

15 مارچ، 1971

صدر یحییٰ خان ڈھاکہ پہنچے اور صوبائی گورنر کے علاوہ دیگر انتظامی اور فوجی افسران سے ملاقات کی۔

16 مارچ، 1971

صدر یحییٰ خان اور شیخ مجیب کی ملاقات ہوئی۔ اگلی صبح گفتگو کا دوسرا دور شروع ہوا۔ ان ملاقاتوں میں صدر یحییٰ اور شیخ مجیب کے علاوہ کوئی تیسرا موجود نہیں تھا۔

17 مارچ، 1971

یحییٰ خان اور عوامی لیگ کے درمیان انتقالِ اقتدار کا طریقۂ کار طے کرنے کے لیے ملاقات ہوئی۔

19 مارچ، 1971

شیخ مجیب ایک بار پھر یحییٰ خان سے ملے اور مارشل لا اٹھانے کا مطالبہ دہرایا۔ صدر یحییٰ کے مشیروں نے دلیل دی کہ اگر 25 مارچ 1969 کو جاری کردہ مارشل لا کے نفاذ کا حکم نامہ منسوخ کیا جاتا ہے تو مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے قیام کے لیے فراہم کردہ قانونی بنیاد ختم ہو جائے گی۔

اس سلسلے میں عوامی لیگ اور صدر یحییٰ کے قانونی مشیروں میں مذاکرات کے کئی دور ہوئے جو بے نتیجہ رہے۔

19-21 مارچ، 1971

مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی ڈھاکہ آمد شروع ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک بڑے وفد کے ساتھ مشرقی پاکستان پہنچے اور صدر یحییٰ سے بھی ملاقات کی۔

22 مارچ، 1971

صدر یحییٰ کی موجودگی میں شیخ مجیب اور ذوالفقار بھٹو کی ملاقات ہوئی لیکن آئینی و قانونی مسائل پر ڈیڈ لاک برقرار رہا۔

24 مارچ، 1971

عوامی لیگ اور صدر یحییٰ کے مشیروں کے درمیان آئین سازی پر مذاکرات ہوئے۔ عوامی لیگ نے اپنے مجوزہ مسودے میں ترمیم کی اور اس میں پاکستان کو ایک 'یونین' کے بجائے 'کنفیڈریشن' بنانے کی تجویز دی جس پر اختلاف پیدا ہوا۔

25 مارچ، 1971

مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن 'سرچ لائٹ' کا آغاز ہو گیا۔ شیخ مجیب اور عوامی لیگ کے دیگر رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد شیخ مجیب کو مغربی پاکستان منتقل کر دیا گیا تھا۔

مشرقی پاکستان میں فوج کے مختلف یونٹس کے بنگالی افسران، فوجیوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کی بغاوت شروع ہو گئی۔

26 مارچ، 1971

یحییٰ خان نے ریڈیو پر قوم سے خطاب میں عوامی لیگ پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا اور شیخ مجیب پر بغاوت کے الزامات لگائے۔

حکومتِ پاکستان نے الزام عائد کیا کہ عوامی لیگ 24 مئی ہی سے علیحدگی کے لیے مسلح بغاوت کی تیاری کر رہی تھی۔ عوامی لیگ نے ان الزامات کی تردید کی۔

27 مارچ، 1971

مشرقی اور مغربی پاکستان سے غیر ملکی صحافیوں کو نکال دیا گیا۔ مارچ 1971 کو شروع ہونے والی فوجی کارروائی کے بعد مشرقی بنگال رجمنٹ کے دیگر یونٹس سے بھی بغاوت ہونے لگی اور مشرقی پاکستان کے کئی علاقوں میں فوج اور باغی آمنے سامنے آ گئے۔

10 اپریل، 1971

عوامی لیگ کے منتخب ارکان نے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کر دیا۔

17 اپریل، 1971

عوامی لیگ نے بھارت کی سرحد سے متصل کشتیہ کے ایک گاؤں میں اپنی کابینہ کی حلف برداری کی تقریب منعقد کی جس میں غیر ملکی میڈیا کو بھی مدعو کیا گیا۔

مئی 1971

حکومت نے کئی اضلاع کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ مزاحمت کرنے والوں کی بڑی تعداد روپوش ہوگئی۔

جولائی 1971

مشرقی پاکستان کے مختلف علاقوں میں گوریلا کارروائیاں شروع ہو گئیں۔

اگست 1971

بھارت نے مشرقی پاکستان کی سرحد پر آٹھ ڈویژن فوج تعینات کر دی اور ساتھ ہی بارڈر سیکیورٹی فورس کی نفری بھی بڑھا دی۔

14 اگست، 1971

پاکستان کے یومِ آزادی کی تقریبات اور حکومت کے حامیوں پر حملوں کے پمفلٹ تقسیم کیے گئے اور یومِ آزادی پر ڈھاکہ سمیت پورے صوبے کا ماحول کشیدہ رہا۔

اگست میں مکتی باہنی (علیحدگی پسند مسلح فورس) کی کارروائیوں میں تیزی آ گئی۔ پاکستان فوج کے لیے سامان رسد لانے والے بحری جہازوں پر مکتی باہنی قبضہ کرنے لگی۔

اکتوبر، نومبر 1971

علیحدگی پسندوں کے ڈھاکہ میں دھماکوں کی وجہ سے پانی اور بجلی کی فراہمی شدید متاثر ہوئی اور شہریوں نے نقل مکانی شروع کر دی۔

3 نومبر، 1971

بھارت کی فوج اور علیحدگی پسندوں نے مشرقی پاکستان کی سرحد پر گولہ باری اور کارروائیاں شروع کر دیں۔

14 نومبر، 1971

بھارت کی فوج نے چٹا گانگ کے علاقے میں پیش قدمی شروع کر دی۔

3 دسمبر، 1971

پاکستان نے مغربی محاذ کھول دیا اور فضائیہ نے سری نگر، پٹھان کوٹ، ہلواڑہ سمیت بھارتی فضائیہ کے اڈوں کو نشانہ بنایا۔ بھارت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے اس حملے کو جنگ کا آغاز قرار دیا۔

جنگ شروع ہونے کے بعد بھارت کی برّی فوج نے ڈھاکہ کی جانب تیزی سے پیش قدمی کی۔ انہیں پاکستان کے مقابلے میں بنگال کے علیحدگی پسند حلقوں کا تعاون بھی حاصل تھا۔

16 دسمبر، 1971

بھارت کی فوج نے ڈھاکہ کا گھیراؤ کر لیا اور پاکستانی فوج کو لڑائی سے دست بردار ہونے کا کہا۔ کمانڈر ایسٹرن کمانڈ جنرل اے کے نیازی کی ہدایت پر پاکستان کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔

8 جنوری، 1972

شیخ مجیب الرحمٰن 25 مارچ 1971 کو فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد سے مغربی پاکستان میں زیرِ حراست تھے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد انہیں آٹھ جنوری 1972 کو رہا کیا گیا جس کے بعد وہ لندن روانہ ہو گئے جہاں انہوں نے بین الاقوامی میڈیا سے بات کی۔ اس کے بعد وہ نئی دہلی گئے جہاں انہوں نے بھارت کے صدر اور وزیرِ اعظم اندرا گاندھی سے ملاقات کی اور اس کے بعد وہ ڈھاکہ پہنچے۔

اس سے قبل 20 دسمبر 1971 کو ذوالفقار علی بھٹو نیویارک سے پاکستان پہنچ گئے تھے۔ وہ اس وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی نمائندگی کررہے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی ملک واپسی کے بعد صدر یحییٰ خان نے اقتدار انہیں منتقل کردیا۔ بھٹو پاکستان کے صدر اور پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ 1973 کے آئین کی منظوری کے بعد انہوں نے وزیر اعظم کا عہدہ اختیار کیا۔

بنگلہ دیش کے قیام کے بعد

پاکستان کو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہاں 1971 میں مرکزی حکومت کا ساتھ دینے والے شہریوں اور اہل کاروں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات کا خدشہ تھا۔ اسی لیے پاکستان بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے میں پس و پیش کا شکار تھا۔

سن 1974 میں سعودی عرب، اردن، مصر اور انڈونیشیا نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے لیے پاکستان سے رابطے شروع کر دیے۔ بالآخر 22 فروری 1974 کو وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ جس کے بعد بنگلہ دیش نے پاکستان میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کی۔

اس سے قبل دو جولائی 1972 کو ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی نے شملہ معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد 1971 کی جنگ میں قیدی بننے والے پاکستانی فوجی اور سویلینز کی رہائی کی راہ ہموار ہوئی اور دونوں ممالک کے درمیان تنازع کشمیر سمیت دو طرفہ تعلقات سمیت دیگر امور پر بھی نکات طے کیے گئے۔

---

اس ٹائم لائن کی تیاری کے لیے اس دور کے اخبارات کی فائلز اور درج ذیل کتب سے مدد لی گئی ہے۔

مسلم لیگ کا دورِ حکومت 1954-1947، ڈاکٹر صفدر محمود

پاکستان کرانیکلز ، عقیل عباس جعفری

The Last Days of United Pakistan by G. W. CHAUDHARY

The Separation of East Pakistan: The Rise and Realization of Bengali Muslim Nationalism by Hasan Zaheer

The Unfinished Memoirs by Mujibur Rahman Sheikh

Language and Politics in Pakistan by Dr. Tariq Rahman

War and Secession: Pakistan, India, and the Creation of Bangladesh by Richard Sisson and Leo E. Rose

The Betrayal of East Pakistan by A. A. K. Niazi

XS
SM
MD
LG