رسائی کے لنکس

لاکھوں افغان بچوں کو پاکستان سے واپسی پربھوک کے بحران جیسی صورت حال کا سامنا ہے: سیو دی چلڈرن


وطن واپسی پر افغان بچے پاکستان اور افغان کے درمیان سرحد طورخم پر سردی سے بچنے کے لیے آگ تاپ رہے ہیں۔ 4 نومبر 2024
وطن واپسی پر افغان بچے پاکستان اور افغان کے درمیان سرحد طورخم پر سردی سے بچنے کے لیے آگ تاپ رہے ہیں۔ 4 نومبر 2024
  • پاکستان سے افغانستان لوٹنے والے سوا پانچ لاکھ افراد میں سے تقریباً نصف بچے ہیں۔
  • بہت سے بچے ایسے ہیں جو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے، افغانستان ان کے لیے اجنبی ملک ہے۔
  • سیو دی چلڈرن کی رپورٹ کے مطابق واپس جانے والوں کے لیے خوراک، چھت اور زندگی کی بنیادی ضروریات کی شدید قلت ہے اور انہیں بڑھتے ہوئے خوراک کے بحران کا سامنا ہے۔

بچوں کی دیکھ بھال سے متعلق عالمی ادارے سیو دی چلڈرن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ستمبر 2023 کے بعد سے پانچ لاکھ 20 ہزار سے زیادہ افغان باشندے اپنے ملک لوٹ چکے ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ سال قانونی دستاویزات نہ رکھنے والے تمام غیر ملکیوں کو ملک چھوڑنے یا ملک بدری کا سامنا کرنے کا حکم دیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان لوٹنے والوں میں لگ بھگ نصف تعداد بچوں کی ہے۔

ان میں سے اکثر بچے پاکستان میں اسکولوں میں جا رہے تھے، لیکن افغانستان لوٹنے کے بعد 65 فی صد بچے اسکول میں داخل نہیں ہوئے۔ لوٹنے والے 85 فی صد افغانوں نے سروے کرنے والوں کو بتایا کہ ان کے پاس بچوں کو اسکول میں داخل کرانے کے لیے درکار دستاویزات نہیں ہیں۔

سروے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جن بچوں سے سوالات کیے گئے تھے، ان میں کتنی لڑکیاں تھیں، کیونکہ طالبان حکومت نے لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے پڑھنے کی ممانعت کر دی ہے۔

بنیادی ضروریات نہیں ہیں

اپنی والدہ اور تین بہن بھائیوں کے ساتھ واپس آنے کے بعد اپنے دادا کے ساتھ رہنے والی 15 سالہ لڑکی نے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، سروے کرنے والوں کو بتایا کہ پاکستان چھوڑنے سے پہلے ہم نے سب کچھ بیچ دیا تھا تاکہ افغانستان جا کر اپنی ضرورت کی چیزیں، مثلاً کپڑے، جوتے، کمبل، دوائیں اور رہنے کی جگہ کا بندوبست کر سکیں۔ مگر افغانستان میں بہت سردی ہے۔ یہاں رہنا بہت مشکل ہے۔

سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ ہر چھ میں سے تقریباً ایک خاندان خیموں میں رہتا ہے اور واپس آنے والوں میں سے اکثریت کے پاس اپنی گزر اوقات کے وسائل بہت کم ہیں یا بالکل نہیں ہیں۔ سروے کا جواب دینے والوں میں سے تقریباً نصف کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ملازمیتں نہیں ہیں۔

بھوک بحرانی سطح پر ہے

اس جائزے سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان سے لوٹنے والے 99 فی صد خاندانوں اور افغانستان میں ان کی میزبانی کرنے والے خاندانوں کے پاس خوراک کا اتنا ذخیرہ نہیں ہے جو ان کی ایک سے دو ماہ کی ضروریات کو پورا کر سکے۔

سیو دی چلڈرن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ خوراک کی اتنی قلت ہے کہ اپنے ملک میں واپس آنے والوں کی میزبانی کرنے والوں نے خاندانوں کے لیے خوراک کی مقدار گھٹا دی ہے یا خاندان کے بالغ افراد سے کہا ہے کہ خود کم کھائیں تاکہ بچوں کو ہفتے میں کم از کم دو دن کھانا مل سکے۔

سروے کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ واپس آنے والے تقریباً 40 فی صد خاندانوں اور ان کے میزبانوں کو ہفتے میں کم ازکم تین دن کھانے کی چیزیں ادھار پر لینی پڑتی ہیں، یا پھر انہیں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے رشتے داروں اور دوستوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

سروے میں اپنا جواب ریکارڈ کرانے والے 13 فی صد خاندانوں اور ان کے 9 فی صد میزبانوں کو اپنی روزانہ کی خوراک کے لیے دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

سروے رپورٹ میں ان سنگین حالات اور مشکلات پر روشنی ڈالی گئی ہے جس کا سامنا پاکستان سے واپس آنے والے افغان باشندوں کو کرنا پڑ رہا ہے، جن میں کئی برسوں سے جاری جنگ، زلزلے، سیلاب اور ملک میں جاری خشک سالی جیسی قدرتی آفات شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تقریباً 80 لاکھ بچوں کو بھوک کے بحران جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔

افغانستان لوٹنے والوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہے

اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ 60 لاکھ افغان باشندے خوراک کی قلت کی بحرانی اور ہنگامی سطح سے گزر رہے ہیں۔

سیو دی چلڈرن کے کنٹری ڈائریکٹر ارشد ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان سے افغان خاندان ایک ایسے ملک میں لوٹ رہے ہیں جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بڑے پیمانے پر لوگوں کی واپسی ان وسائل پر اضافی بوجھ ہے جو پہلے سے ہی محدود ہیں۔

ارشد ملک نے کہا کہ بحران کا شکار ملک نقل مکانی کے دباؤ سے نمٹنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس میں اب اس میں پاکستان سے لوٹنے والے خاندان بھی شامل ہو گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے پچھلے سال ہمسایہ ملک ایران سے تقریباًچھ لاکھ افغان واپس آئے ہیں۔ جس سے اب تعداد کے اعتبار سے افغانستان اندرون ملک بے گھر ہونے والوں کا دنیا میں دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ ملک کی کل آبادی میں ہر سات میں سے ایک شخص بے گھر ہے۔

انہوں نے پاکستان سے لوٹنے والے خاندانوں کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے قانونی دستاویزات نہ رکھنے والے بچوں میں سے بہت سے پاکستان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے لیے افغانستان ایسی جگہ نہیں ہے جسے وہ اپنا گھر کہہ سکیں۔

مسائل کی ایک وجہ طالبان کی پالیسیاں ہیں

سن 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک کے معاشی اور معاشرتی صورت حال میں ابتری آئی ہے۔ طالبان نے خواتین کی تعلیم، ملازمت اور عوامی زندگی میں ان کی رسائی پر پابندیاں لگا دی ہیں۔

خواتین کے حقوق پر پابندیوں اور دیگر متنازع پالیسیوں کے باعث بین الاقوامی برادری نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ جس کی وجہ سے معاشی ترقی کے لیے بیرونی وسائل تک رسائی رکی ہوئی ہے۔

تاہم اقوام متحدہ اور دیگر غیر ملکی اور غیر سرکاری تنظیمں ملک میں انسانی امداد فراہم کر رہی ہیں۔

(ایاز گل، وی او اے نیوز)

فورم

XS
SM
MD
LG