رسائی کے لنکس

بالٹی مور پل سے جہاز ’ڈالی‘ کی ٹکر؛  فیک نیوز اور حقائق


بالٹی مور میں فرانسس سکاٹ کی برج کے ایک ستون سے مال بردار بحری جہاز ’ڈالی‘ کی ٹکر سے پل کا پورا ڈھانچہ دریا میں گر گیا۔ 26 مارچ 2024
بالٹی مور میں فرانسس سکاٹ کی برج کے ایک ستون سے مال بردار بحری جہاز ’ڈالی‘ کی ٹکر سے پل کا پورا ڈھانچہ دریا میں گر گیا۔ 26 مارچ 2024
  • بالٹی مور میں بحری جہاز کی ٹکر سے کی برج کی تباہی سے متعلق سوشل میڈیا پرکئی فیک نیوز پھیلی ہوئی ہیں۔
  • سوشل میڈیا پر روس کے ’کرچ برج‘ کی فوٹیج کو ’کی برج‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
  • فیک نیوز میں بحری جہاز کے کپتان کو یوکرینی باشندہ ظاہر کیا گیا ہے۔
  • اس آرٹیکل میں فیک نیوز کا پس منظر اور حقائق سامنے لائے گئے ہیں۔

امریکی بندرگاہ بالٹی مور کے قریب ایک مال بردار بحری جہاز کی ٹکر سے ایک پل گرنے کے بعد جہاں حکام اس حادثے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں اور تعمیر و مرمت کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، وہاں سوشل میڈیا پر اس حادثے سے متعلق جو تصویریں، ویڈیوز اور خبریں گردش کر رہی ہیں جن میں سے کئی ایک حقائق کے برعکس ہیں۔

ایک ویڈیو کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ" فرانسس سکاٹ کی برج" کے گرنے سے پہلے کی ہے۔ جس میں پل پر پہلے ایک دھماکہ ہوتا ہے جس کے بعد پل سمندر میں گر جاتا ہے۔

کی برج کی فیک ویڈیو

ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی ایک رپورٹ میں اس دعوی کو فیک نیوز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی یہ ویڈیو 2022 کی ہے۔ ویڈیو میں دکھایا جانے والا پل بالٹی مور کا "فرانسس سکاٹ کی برج" نہیں ہے بلکہ اس کا نام "کرچ برج "ہے۔ یہ پل روس کو جزیرہ نما کرائمیا سے ملاتا ہے۔ دھماکے سے کرچ برج کو جزوی نقصان پہنچا تھا۔ یہ فوٹیج پہلی بار 2022 میں روسی ٹیلی گرام اور کئی دوسرے بڑے میڈیا چینلز پر شیئر کی گئی تھی۔

روس کو کرائمیا سے ملانے والے کرچ برج کی 2018 کی ایک تصویر۔ سن 2022 میں ایک باردوی دھماکے سے اس پل کا کچھ حصہ منہدم ہو گیا تھا، اس واقعہ کی فوٹیج ، کی برج کے حادثے سے منسوب کر کے سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی ہے۔
روس کو کرائمیا سے ملانے والے کرچ برج کی 2018 کی ایک تصویر۔ سن 2022 میں ایک باردوی دھماکے سے اس پل کا کچھ حصہ منہدم ہو گیا تھا، اس واقعہ کی فوٹیج ، کی برج کے حادثے سے منسوب کر کے سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی ہے۔

بالٹی مور کے پل سے بحری جہاز،"ڈالی" کے ٹکرانے کا واقعہ مختلف نوعیت کا ہے۔ منگل 26 مارچ کو ہونے والے اس حادثے سے قبل جہاز کے بجلی کے نظام میں خلل پڑ گیا تھا، جس سے سمت اور رفتار کنٹرول کرنے والے آلات نے کام کرنا چھوڑ دیا اور جہاز دریائے پتاپسکو پر قائم ’کی برج‘ سے ٹکرا گیا، جس سے پل دریا میں گر گیا۔

15 سیکنڈ کے اس ویڈیو کلپ میں، جسے’کی برج‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، رات کے وقت ایک محراب نما پل پر سے گاڑیاں گزرتی ہوئی دکھائی گئیں ہیں۔ جس کے بعد آگ کا ایک گولہ نموار ہوتا ہے اور پل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

منگل کی شام تک اس فوٹیج کی ٹویٹ پر تقریباً 7500 لائیکس آ چکے تھے اور اسے 3800 مرتبہ شیئر کیا جا چکا تھا۔

اسی طرح فیس بک کی ایک پوسٹ کو، جس میں اس فوٹیج کو شیئر کیا گیا تھا، جمعے تک 278 یزار بار سے زیادہ دیکھا گیا تھا۔

لیکن اس فوٹیج کا فرانسس سکاٹ کی برج کے حادثے سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ہے اس حادثے کی وائس آف امریکہ کی ویڈیو

’کی برج‘ سے ڈالی کی ٹکر دہشت گردی نہیں

کی برج سے مال بردار جہاز ڈالی ٹکرانے کا واقعہ رات ایک بج کر 30 منٹ کے لگ بھگ پیش آیا۔ جہاز پل کے ایک ستون سے ٹکرایا جسے پل چند سیکنڈ میں دریا میں گر گیا۔ اس حادثے میں پل کے قریب موجود چھ مزور ڈوب گئے، جن میں سے دو کی لاشیں نکال لی گئیں ہیں جب کہ بقیہ چار کے متعلق یہ تعین کر لیا گیا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔

پل سے جہاز ٹکرانے کے اس واقعہ کے بارے میں ایف بی آئی اور امریکہ کے اٹارنی جنرل ایریک بیرن اور ریاست میری لینڈ کے پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے کوئی آثار نہیں ملے۔

سمندری ٹریفک کے نگران ادارے کا کہنا ہے کہ بحری جہاز ڈالی بالٹی مور سے سری لنکا کی بندرگاہ کولمبو جا رہا تھا اور اس پر سنگاپور کا پرچم آویزاں تھا۔

ڈالی کا کپتان یوکرینی نہیں تھا

کی برج حادثے کی ایک اور فیک نیوز یہ ہے کہ بحری جہاز ڈالی کا کپتان یوکرینی باشندہ تھا۔ سوشل میڈیا پر اسے غالباً روس یوکرین جنگ کے پس منظر میں پھیلایا گیا ہے۔

مال بردار بحری جہاز ڈالی، کی برج سے ٹکرانے کے بعد مہندم پل کے پاس کھڑا ہے۔ 26 مارچ 2024
مال بردار بحری جہاز ڈالی، کی برج سے ٹکرانے کے بعد مہندم پل کے پاس کھڑا ہے۔ 26 مارچ 2024

حقیقت یہ ہے کہ جب ڈالی، کی برج کے ایک ستون سے ٹکرایا تو اس کا کپتان ایک بھارتی تھا۔بلکہ صرف کپتان ہی نہیں ڈالی کا سارا عملہ ہی بھارتی باشندوں پر مشتمل تھا۔

سوشل میڈیا پر شیئر کیے جانے والے جس شخص کے سکرین شاٹ کو ڈالی کے کپتان کے طور پر پیش کیا گیا ہے، وہ 2016 میں صرف پانچ مہینوں کے لیے اس جہاز کا کپتان رہا تھا۔

حادثے کے وقت ڈالی پر بھارتی کپتان کے علاوہ دو پائلٹ بھی موجود تھے۔ بحری جہاز رانی کی اصطلاح میں پائلٹ ان افراد کو کہا جاتا ہے جو کسی خاص مقام کے سمندری محل و وقوع سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اور وہ جہاز کو بندرگاہ تک پہنچانے اور بندرگاہ سے کھلے سمندر میں لے جانے میں راہنمائی کرتے ہیں۔ اس دوران جہاز کا عملہ ان کی ہدایات پر عمل کرتا ہے۔ دونوں پائلٹ امریکی شہری تھے اور ان کے پاس اپنے شعبے میں مہارت کا لائسنس تھا۔

بحری جہاز ڈالی کے فرانسس سکاٹ پل سے ٹکرانے کے بعد ، پل کی صفائی اور مرمت کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ 29 مارچ کو پل کا منظر کچھ اس طرح دکھائی دے رہا ہے۔
بحری جہاز ڈالی کے فرانسس سکاٹ پل سے ٹکرانے کے بعد ، پل کی صفائی اور مرمت کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ 29 مارچ کو پل کا منظر کچھ اس طرح دکھائی دے رہا ہے۔

کی برج حادثے سے سینیٹر مکونیل کی سالی کا کوئی تعلق نہیں

بالٹی مور حادثے کے متعلق سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی ایک اور فیک نیوز یہ ہے کہ ڈالی امریکی سینیٹ کے اقلیتی لیڈر مچ مک کونیل کی سالی انجیلا چاؤ کی ملکیت تھا۔

یہ خبر پھیلانے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ 10 فروری کو چاؤ، ٹیکساس کے ایک تالاب میں ڈوب کر ہلاک ہو گئی تھی۔ امکانی طور پر ڈوبنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ شراب کے نشے میں دھت ہو کر کار چلا رہی تھی، جو پھسل کر ایک تالاب میں گر گئی تھی۔ مقامی حکام نے چاؤ کی موت کو مشکوک قرار دیا تھا۔

سوشل میڈیا پر چاؤ کی موت کو ممکنہ خودکشی ظاہر کرتے ہوئے ڈالی کے حادثے سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔

شپنگ کمپنی فورموسٹ گروپ کی سربراہ اور سی ای او انجیلا چاؤ۔ فائل فوٹو
شپنگ کمپنی فورموسٹ گروپ کی سربراہ اور سی ای او انجیلا چاؤ۔ فائل فوٹو

حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے۔ انجیلا چاؤ کا خاندان بحری جہاز رانی کا کاروبار کرتا ہے اور چاؤ اپنی کمپنی کی سی ای او اور سربراہ تھیں۔ ان کی شپنگ کمپنی فورموسٹ گروپ نیویارک میں قائم ہے۔ جب کہ بحری جہاز ڈالی، گریس اوشن پرائیویٹ کی ملکیت ہے اور اس کا انتظام سینرگی میرین گروپ کرتا ہے۔ یہ دونوں کمپنیاں سنگاپور میں قائم ہیں۔

فرانسس سکاٹ کی برج کے چند حقائق

بالٹی مور کا شمار بحر اقیانوس کی دوسری سب سے بڑی بندرگاہ کے طور پر کیا جاتا ہے۔

بالٹی مور کی طرح ’کی برج‘ بھی ایک مصروف ترین پل ہے جس پر سے روزانہ 30 ہزار کے قریب گاڑیاں گزرتی تھیں۔ 2023 میں اس پل پر سے ایک کروڑ 24 لاکھ سے زیادہ گاڑیاں گزری تھیں۔

کی بریج کی لمبائی ڈیڑھ میل ہے۔

اس کی تعمیر 1972 میں شروع ہوئی تھی اور 23 مارچ 1977 میں اسے ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا تھا۔

کی برج پر 11 کروڑ ڈالر سے زیادہ لاگت آئی تھی۔

(اس آرٹیکل کے لیے کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG