رسائی کے لنکس

غزہ جنگ پر امریکی جامعات میں احتجاج کرنے والے کون ہیں؟


کولمبیا یونیورسٹی میں طلبہ کا احتجاجی کیمپ۔
کولمبیا یونیورسٹی میں طلبہ کا احتجاجی کیمپ۔

  • امریکہ کی یونیورسٹیز میں فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے زور پکڑ رہے ہیں۔
  • کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے احتجاجی کیمپس میں مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کی دعائیہ تقاریب منعقد کی ہیں۔
  • کولمبیا یونیورسٹی کے نیویارک کیمپس میں فلسطینیوں کے حامی مظاہرین نے دوبارہ اپنے خیمے لگا دیے ہیں۔
  • امریکی ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے تعلیم و افرادی قوت غزہ تنازع سے متعلق طلبہ کی سرگرمیوں پر اب تک چار سماعتیں منعقد کر چکی ہے۔

امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز میں گزشتہ کئی روز سے فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کے حامی بھی احتجاج کر رہے ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی کے نیویارک کیمپس میں 18 اپریل کو فلسطینوں کی حمایت میں احتجاج کرنے والے 100 سے زائد مظاہرین کی گرفتاری کے بعد وہاں مظاہرین نے دوبارہ اپنے خیمے لگا دیے ہیں جب کہ کیلی فورنیا اور میسا چوسٹس کے کئی تعلیمی اداروں سے بھی احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع پر سیاسی قیادت، تعلیمی اداروں کی انتظامیہ و اساتذہ اور طلبہ کے ردّعمل نے نہ صرف جامعات بلکہ امریکہ عوام کی رائے کو بھی منقسم کر دیا ہے۔

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع پر امریکی جامعات میں کون احتجاج کر رہا ہے اور اس بارے میں کیا جاننا اہم ہے؟ اس سے متعلق کچھ تفصیلات یہاں دی جارہی ہیں۔

احتجاج کون کر رہا ہے؟

کولمبیا میں ہونے والے مظاہروں کا منتظم کولمبیا یونیورسٹی اپارتھائیڈ ڈائیویسٹ (سی یو اے ڈی) نامی گروپ ہے۔ اس گروپ کا کہنا ہے کہ یہ 100 سے زائد طلبہ تنظیموں کا اتحاد ہے۔ اس کی بنیاد 2016 میں رکھی گئی تھی۔

یہ اتحاد مطالبہ کرتا ہے کہ کولمبیا یونیورسٹی ایسی کمپنیوں میں اپنی سرمایہ کاری ختم کردے جو ہتھیار بناتی ہیں یا وہ دیگر کمپنیاں جو فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے میں معاون ہیں۔ اسے ڈائیوسٹمنٹ یا سرمایہ کاری ختم کرنے کا مطالبہ کہا جاتا ہے۔ سی یو اے ڈی کو یہ مطالبہ منوانے میں کامیابی نہیں ہوسکی تھی۔

گزشتہ برس حماس کے اسرائیل پر ہلاکت خیز حملے اور اس کے ردعمل میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد یہ گروپ ایک بار پھر فعال ہوا اور ڈائیوسٹمنٹ کے لیے مظاہرے کر رہا ہے۔ اس گروپ میں یہودی، مسلمان اور فلسطینی ارکان بھی شامل ہیں جو ان مظاہروں میں شرکت کر رہے ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے احتجاجی کیمپس میں مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کی دعائیہ تقاریب منعقد کی ہیں۔ بعض مظاہرین نے اپنی تقاریر میں اسرائیل اور صہیونیت کی مذمت اور فلسطینی مسلح مزاحمت کی تعریف بھی کی ہے۔

سی یو اے ڈی کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کرنے والے مظاہرین کے نمائندے محمود خالد فلسطینی ہیں۔ وہ کولمبیا اسکول آف انٹرنیشنل پبلک افیئرز میں پوسٹ گریجویٹ کے طالب علم ہیں۔ وہ احتجاجی کیمپ میں آتے ہیں اور مظاہرین و صحافیوں سے بات بھی کرتے ہیں لیکن وہ خود احتجاج کے لیے لگائے گئے خیموں میں نہیں رہتے۔

اتحاد میں شامل احتجاج کرنے والے سرکردہ گروپس میں ’جیوئش وائس آف پیس اینڈ اسٹوڈنٹ فور جسٹس اِن پیلسٹائن‘ بھی شامل ہے۔ یہ گروپ دو دہائیوں سے صہیونیت کے خلاف کام کر رہا ہے اور اس کے مختلف چیپٹرز پورے امریکہ کے تعلیمی اداروں میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف مظاہرے منظم کرتے ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی نے گزشتہ برس نومبر میں ان دونوں گروپس کو ضوابط کی خلاف ورزی کی بنا پر معطل کردیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف نیویارک سول لبرٹیز نامی غیر سرکاری تنظیم ان گروپس سے وابستہ طلبہ کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر رہی ہے۔

نیویارک سول لبرٹیز کا کہنا ہے کہ کولمبیا یونیورسٹی کی انتظامیہ نے طلبہ گروپس کو معطل کرتے ہوئے اپنے ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے اور ان گروپس کو دی جانے والی سزا بہت زیادہ ہے۔

نعمت مینوش شفیق کون ہیں؟

مصری نژاد نعمت شفیق تعلقاتِ عامہ کی پروفیسر اور گزشتہ برس جولائی سے کولمبیا یونیورسٹی کی صدر ہیں۔ انہیں 17 اپریل کو امریکہ کے ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے تعلیم اور افرادی قوت میں یونیورسٹی کیمپس میں مبینہ یہود مخالف سرگرمیوں سے متعلق گواہی کے لیے بھی طلب کیا گیا تھا۔

اس سماعت میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بات پریشان کُن ہے کہ ہماری بعض کمیونٹیز کا طرزِِ عمل ہماری اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا۔

اس سے اگلے ہی روز نعمت مینوش شفیق نے نیویارک پولیس کو مظاہرین کے کیمپس ہٹانے کے لیے یونیورسٹی کے احاطے میں داخلے کی اجازت دی تھی۔ اس اقدام پر فلسطینیوں کے حامی ایک گروپ نے یونیورسٹی کے خلاف شہری حقوق کی خلاف ورزی کی درخواست دائر کی ہے۔

امریکی ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے تعلیم و افرادی قوت اور اس کی ذیلی کمیٹی غزہ تنازع سے متعلق طلبہ کی سرگرمیوں پر اب تک چار سماعتیں منعقد کر چکی ہے۔ ان سماعتوں میں ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والی نمائندہ ایلس اسٹیفنک نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

گزشتہ برس کے آخر میں ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر کلاڈین گے اور یونیورسٹی آف پنسلوینیا کی صدر لز میگل اس کمیٹی کے سامنے دیے گئے اپنے بیانات پر تنقید کی وجہ سے مستعفی ہو گئے تھے۔ مستعفی ہونےو الے دونوں عہدے داروں نے اسٹیفنک کے اس سوال جواب ’ہاں‘ یا ’نہیں‘ میں دیا تھا کہ یہودیوں کی نسل کشی کا مطالبہ کرنا تعلیمی اداروں کے ہراسانی اور دوسروں کو اذیت پہنچانے سے متعلق قواعد کی خلاف ورزی ہوگی یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے آزادیٔ اظہار کے تحفظ کے ساتھ متوازن کرنا ہوگا۔

ایوان کی کمیٹی برائے تعلیم و افرادی قوت کی سربراہ ورجینیا فوکس نے ایوان کے اسپیکر مائیک جونسن کے ہمراہ 24 اپریل کو کولمبیا یونیورسٹی کا دورہ کیا تھا۔ اس موقعے پر ورجینیا فوکس نے کولمبیا یونیورسٹی کی انتظامیہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مبینہ یہود مخالف سرگرمیوں کی روک تھام میں ناکام رہی ہے۔

اثنا تبسم کی تقریر کی منسوخی

یونیورسٹی آف ساؤتھ کیلی فورنیا نے روایت کے مطابق اپنے کانووکیشن میں تقریر کے لیے بائیومیڈیکل کی طالبہ اثنا تبسم کا انتخاب کیا تھا۔ تبسم مسلمان ہیں اور ان کے خاندان کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے۔ انہوں نے اپنے انسٹا گرام سے فلسطینیوں کے حق میں بنائے گئے ایک پیج کا لنک پوسٹ کیا تھا۔

غزہ کی پٹی؛ حماس سے پہلے اور حماس کے بعد
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:22 0:00

بعد ازاں 15 اپریل کو یونیورسٹی نے اعلان کیا کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے اثنا کا روایتی خطاب منسوخ کیا جا رہا ہے۔

اثنا تبسم نے اپنے ردِ عمل میں کہا تھا کہ انہیں یونیورسٹی کے فیصلے پر شدید مایوسی ہوئی کہ وہ نفرت انگیز مہم کا شکار ہو کر ان کی آواز خاموش کر رہی ہے۔

یونیورسٹی آف ساؤتھ کیرولائنا نے 25 اپریل کو اعلان کیا تھا کہ رواں ہفتے طلبہ کے احتجاج کے پیشِ نظر تقسیم اسناد کی تقریب منسوخ کی جا رہی ہے۔

اس تحریر کا مواد خبر رساں ادارے رائٹرز سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG