رسائی کے لنکس

افغانستان میں شیعہ مسجد پر دہشت گرد حملے میں چھ افراد ہلاک


طالبان کے سیکیورٹی اہل کار ہرات کے ضلع گذرہ میں اہل تشیع کے قبرستان میں مسجد پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین کے موقع پر سیکیورٹی فراہم کر رہے ہیں۔ 30 اپریل 2024
طالبان کے سیکیورٹی اہل کار ہرات کے ضلع گذرہ میں اہل تشیع کے قبرستان میں مسجد پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین کے موقع پر سیکیورٹی فراہم کر رہے ہیں۔ 30 اپریل 2024
  • شیعہ مسجد پر حملہ صوبہ ہرات میں پیر کی رات اس وقت ہوا جب نماز ادا کی جا رہی تھی۔
  • فوری طور پر حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔
  • اس سے قبل شیعہ کمیوٹیز پر دہشت گرد حملے عموماً داعش کی جانب سے ہوتے رہے ہیں۔

افغانستان میں طالبان حکام نے منگل کو بتایا کہ ایران کی سرحد کے ساتھ واقع ایک علاقے میں ایک شیعہ مسجد پر ایک نامعلوم مسلح شخص کے حملے میں ایک بچے سمیت کم ازکم چھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

افغان وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ صوبہ ہرات کے ضلع گذرہ میں ایک نامعلوم شخص نے ایک مسجد میں داخل ہو کر نمازیوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

ترجمان عبدالمتین قانع نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ اس حملے میں کہ چھ افراد ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔

فوری طور پر کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا، لیکن اس کا شک ایک علاقائی گروپ اسلامک اسٹیٹ خراسان پر کیا جا رہا ہے ۔ یہ گروپ داعش کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

داعش ایک سنی انتہا پسند گروپ ہے جو اس سے قبل ملک میں اہل تشیع کی مساجد، اسپتالوں اور عوامی اجتماعات پر ہونے والے تقریباً تمام حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتا رہا ہے۔

کابل میں ایران کے سفیر حسن کاظمی قمی نے پیر کی رات ہونے والے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ داعش خراسان، دونوں ہمسایہ ملکوں اور خطے کے دیگر علاقوں کے لیے ایک مشترکہ بیرونی خطرہ ہے۔

حسن کاظمی قمی نے، جو افغانستان کے لیے خصوصی صدارتی ایلچی بھی ہیں، مختصر پیغام رسانی کے پلیٹ فارم ایکس پر لکھا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغانستان کو اپنا شراکت دار سمجھتے ہیں اور اس علاقے میں ان کا تعاون ہماری اولین ترجیح ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن یو این اے ایم اے نے مسجد پر فائرنگ کی مذمت کی ہے۔

یو این اے ایم اے نے ایکس پر پوسٹ کیے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس حملے کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف تحقیقات، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے اور افغانستان کی شیعہ کمیونٹیی کے تحفظ کے لیے اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔

اسلامک اسٹیٹ خراسان (داعش) اس سے قبل حکمران طالبان سے منسلک لیڈروں اور اہم مذہبی اسکالرز کے خلاف ہلاکت خیز بم حملوں کی منصوبہ بندی کرتا رہا ہے۔

سن 2021 میں طالبان کے افغانستان کے اقتدار پر دوبارہ قبضے کے بعد سے ملک میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک نے 2021 میں اپنی 20 سالہ جنگ ختم کرتے ہوئے افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لی تھیں جس سے ملک پر قائم اشرف غنی کی حکومت منہدم ہو گئی تھی اور طالبان نے کابل میں داخل ہو کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔

(وی او اے نیوز)

فورم

XS
SM
MD
LG