رسائی کے لنکس

پاکستان غیر ملکی ایئر لائنز کی رقوم منتقل کرنے کے لیے اقدامات کرے: ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن


  • پاکستان اور بنگلہ دیش میں دنیا کی مختلف ایئر لائنز کے کمائے گئے 720 ملین ڈالر موجود ہیں: انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹیشن ایسوسی ایشن
  • دونوں ممالک کی طرف سے تاخیر کی وجہ سے ایئر لائنز کو دو طرفہ معاہدوں اور ڈالر کے ریٹس میں تبدیلی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
  • ایاٹا نے پاکستان کے متعلق کہا کہ حکومتِ پاکستان ایئر لائنز کی طرف سے کمائی گئی رقم واپس اپنے ممالک میں بھجوانے کے لیے موجود نظام کو بہتر بنائے۔

انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسویسی ایشن (ایاٹا) نے پاکستان اور بنگلہ دیش میں دنیا کی مختلف ایئر لائنز کے 720 ملین ڈالرز رکنے پر دونوں حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے پر جلد سے جلد اقدامات کریں۔

ایاٹا کے ریجنل وائس پریذیڈنٹ فلپ گوہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں دنیا کی مختلف ایئر لائنز کے کمائے گئے 720 ملین ڈالر موجود ہیں۔

ان میں سے پاکستان میں 399 اور بنگلہ دیش میں 323 ملین ڈالر موجود ہیں جو ایئر لائنز نے ان ممالک سے کمائے۔ لیکن بیرون ممالک اپنی اپنی ایئر لائن کو نہیں بھجوا پا رہیں۔

ایوی ایشن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال میں صارفین کے لیے مزید مشکلات ہوں گی کہ ایئر لائنز کے ٹکٹ مزید مہنگے اور نشستوں کا حصول مشکل ہو جائے گا۔

فلپ گوہ کا کہنا ہے کہ ایئر لائنز کے لیے اس رقم کا اپنے ملک میں واپس جانا ایئر لائنز کے مختلف لیز معاہدوں، سپیئر پارٹس، اوور فلائٹ ادائیگیوں اور فیول کی ادائیگیوں کے لیے ناگزیر ہیں۔

دونوں ممالک کی طرف سے تاخیر کی وجہ سے ایئر لائنز کو دو طرفہ معاہدوں اور ڈالر کے ریٹس میں تبدیلی کے مسائل کا سامنا کر پڑ سکتا ہے۔

ایاٹا نے دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ 720 ملین ڈالر کی یہ رقم ان ایئر لائنز کو واپس بھجوانے کے لیے فوری طور پر اقدامات کرے تاکہ ایئر لائنز اپنے آپریشن کسی تعطل کے بغیر جاری رکھ سکیں۔

ایاٹا نے پاکستان کے متعلق کہا کہ حکومتِ پاکستان ایئر لائنز کی طرف سے کمائی گئی رقم واپس اپنے ممالک میں بھجوانے کے لیے موجود نظام کو بہتر بنائے، اس وقت پاکستان میں ایئر لائنز کو آڈٹ سرٹیفکیٹ اور ٹیکس سے استثنیٰ کا سرٹیفکیٹ دینا ہوتا ہے اور ان دستاویزات کا حصول غیرضروری تعطل کا باعث بنتا ہے۔

بنگلہ دیش کے حوالے سے ایاٹا کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں نظام نسبتاً بہتر ہے۔ لیکن بنگلہ دیش کے مرکزی بینک کو فارن ایکسچینج کے معاملات کو مزید اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔

ایاٹا کے ریجنل وائس پریذیڈنٹ فلپ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتوں کو فارن کرنسیز کے حوالے سے مختلف چیلنجز درپیش ہوتے ہیں۔

اُن کے بقول دنیا بھر کی ایئر لائنز بہت کم مارجن پر کام کر رہی ہیں۔ ایئر لائنز کو مختلف مارکیٹس میں اپنی خدمات کو بہتر بنانے اور اپنے صارفین کو بر وقت سہولیات مہیا کرنے کے لیے ریونیو کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایئر لائنز کے آپریشن متاثر ہونے سے کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی، بیرونی سرمایہ کاری اور برآمدات پر فرق پڑ سکتا ہے۔

'دونوں ملکوں کو ڈالرز کی کمی کا سامنا ہے'

ایوی ایشن امور کے تجزیہ کار طاہر عمران نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایاٹا کی طرف سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے لیے جاری ہونے والی نئی ہدایات دونوں ملکوں میں ڈالر کی کمی کی وجہ سے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومتِ پاکستان کے پاس بدستور ڈالر کی کمی ہے اور دنیا کی مختلف ایئر لائنز کو اپنی کمائی گئی رقم واپس اپنے ممالک میں لے جانے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔

یہ رپورٹ ہر چھ ماہ کے بعد ایاٹا کی طرف سے جاری کی جاتی ہے۔ گزشتہ اکتوبر نومبر میں یہ رپورٹ سامنے آئی تھی۔

اس سے قبل دسمبر 2022 میں عالمی ہوا بازی کے ادارے نے کہا تھا کہ پاکستان نے عالمی ایئر لائنز کے واجب الادا 22 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کو روک دیا تھا۔ اس کے بعد جون 2023 میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ایئر لائنز کے 18 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کے فنڈز رکے ہوئے ہیں اور اب بتایا جا رہا ہے کہ 399 ملین ڈالر پاکستان میں رکے ہوئے ہیں۔

طاہر عمران نے اس صورتِ حال کے باعث پاکستان کی ایوی ایشن انڈسٹری کے خطرات کے بارے میں کہا کہ پاکستان سے بہت سی ایئر لائنز پہلے ہی جا چکی ہیں اور اس وقت جتنی ایئر لائنز پاکستان میں کام کر رہی ہیں اس بات کے امکانات بہت محدود ہیں کہ وہ پاکستان سے اپنا آپریشن ختم کریں یا محدود آپریشن کریں۔

اُن کے بقول ایسا فیصلہ کرنا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ لیکن اس سے صارفین کو مشکلات پیش آتی ہیں، بیرون ملک بیٹھا کوئی شخص اپنے پاکستانی ایئر لائن ایجنٹ کے ذریعے دیگر ممالک کی ایئر لائن کی سیٹس بک نہیں کر سکتا۔

اُن کے بقول اس کے علاوہ ٹکٹس مزید مہنگے ہو سکتے ہیں جس سے اقتصادی معاملات میں پاکستان کو مشکل ہو گی۔ لیکن ایئر لائنز پاکستان سے آپریشن بند کرنے کا رسک نہیں لیں گی۔

اس بارے میں پاکستان کی وزارت خزانہ اور سول ایوی ایشن اتھارٹی سے رابطہ کیا گیا۔ لیکن وزارتِ خزانہ کی طرف سے اس بارے میں کوئی جواب نہیں دیا گیا اور سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اس بارے میں خود کو غیر متعلقہ کہا اور وزارت خزانہ سے بات کرنے کا مشورہ دیا۔

فورم

XS
SM
MD
LG