رسائی کے لنکس

اقتصادی پابندیوں میں جکڑے طالبان نے پڑوسی ملکوں کا بجلی کا قرضہ چکا دیا؟


کبل ، بجلی، فوٹو رائٹرز
کبل ، بجلی، فوٹو رائٹرز

افغانستان نے تین وسطی ایشیائی پڑوسیوں کے بجلی کے نمایاں قرضے ادا کر دیے ہیں اور وہ توانائی کی سپلائی میں اضافے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جو اس بات کا اشارہ دے سکتا ہے کہ طالبان حکومت اقتصادی استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے۔

خشکی سے گھرا افغانستان توانائی کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، اور وہ اپنی 70 فیصد سے زیادہ بجلی تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے ساتھ ساتھ ایران سے حاصل کرتا ہے۔

اس سال، تاجکستان کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان کو 1.9 ارب کلو واٹ گھنٹے بجلی برآمد کریں گے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ ہے۔

طالبان کے زیرانتظام افغانستان کی بجلی کی قومی کمپنی DABS کے مطابق، طالبان حکام ترکمانستان اور ازبکستان سے بجلی کی سپلائی میں مزید اضافے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

دسمبر میں، افغانستان نے توانائی کی مسلسل فراہمی کو محفوظ بناتے ہوئے، تین وسطی ایشیائی جمہوریاؤں کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدوں کی تجدید کی۔

اگست 2021 میں سابق حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان کی بجلی کی ادائیگیاں بقایاجات میں پڑ گئی تھیں۔ جس کے نتیجے میں کچھ سپلائرز نے سروسز منقطع کرنے کی دھمکیاں دی تھیں۔

تاہم نئی طالبان حکومت نے سخت بینکنگ اور اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے لگ بھگ ایک سال سے بر وقت ادائیگیوں کی کوشش کی ہے۔

گزشتہ ہفتے، ڈی اے بی ایس کے ترجمان نے کہا کہ کابل نے سابق حکومت کے بلوں کی مد میں 627 ملین ڈالر ادا کیے ہیں۔

تاہم ڈی اے بی ایس کے سابق ڈائریکٹر امان اللہ غالب ان اعداد و شمار سے اختلاف کرتے ہیں۔

غالب نے وائس آف امریکہ کو بتایا، "بقایا ادائیگیاں 40 سے 50 ملین ڈالر تک تھیں۔" انہوں نے کہا،"ادائیگی ہر دو ہفتے بعد واجب الادا تھی، اور غلطیوں پر سخت جرمانے اور فیسیں لگتی تھیں۔ ایسا نہیں تھا کہ ڈی اے بی ایس نے برسوں یا مہینوں سے ادائیگی نہیں کی تھی۔"

غالب نے مزید کہا کہ افغانستان 600 سے 650 میگا واٹ در آمدی بجلی کے لیے سالانہ تقریباً 250 ملین ڈالر ادا کرتا ہے۔

وی او اے نے ادائیگی اور رقم کے بارے میں وضاحت کے لیے DABS کے ترجمان سے رابطہ کیا، لیکن انہوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

بزنس اور سیاست

اس کے باوجود کہ افغانستان کو بجلی سپلائی کرنے والے وسطی ایشیا کی تینوں ملکوں نے طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے، تاہم اپنے اقتصادی مفادات کی وجہ سے وہ کابل کے ساتھ جاری اپنے معاہدوں کو مسلسل برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

اگرچہ ترکمانستان کے افغانستان کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات مسلسل قائم ہیں، ترکمانستان نے کچھ طالبان مخالف شورش پسندوں کو پناہ دی ہوئی ہے اور تاجک صدر امام علی رحمان نے ایک جامع افغان حکومت کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہوا ہے۔

غالب نے افغانستان اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان تعلقات کے بارے میں کہا، اقتصادی مفادات کی وجہ سے وہ طالبان کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔

اگست 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد اقتصادی زوال کے انتباہوں کے باعث افغانستان کا اقتصادی منظر نامہ بدستور پیچیدہ ہے۔ سابقہ افغان حکومت کے بجٹ کا نصف سے زیادہ فراہم کرنے والے عطیہ دہندگان نے ترقیاتی امداد منقطع کر دی، ملک کے کمزور بینکنگ سیکٹر پر پابندیاں نافذ کیں اور بیرون ملک افغانستان کے نو ارب ڈالر سے زیادہ کے مالی اثاثے منجمد کر دیے۔

تاہم عالمی بینک نے رپورٹ دی ہے کہ افغان کرنسی دوسروں کے مقابلے میں بدستور مستحکم رہی ہے۔ 2023 میں اس کے سالانہ ملک محصولات لگ بھگ دو ارب ڈالر تک تھے اور اس کی برآمدات 19 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔

افغانستان کے سابق وزیر خزانہ خالد پائندہ نے وی او اے کو بتایا کہ، اگرچہ 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان کے مجموعی وسیع اقتصادی منظر نامے میں کچھ روشن پہلو ہیں، تاہم معیشت کی مجموعی صورت حال انتہائی گھمبیر ہے۔

امدادی اداروں نے رپورٹ دی ہے کہ طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے ملک میں غربت اور بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

پائندہ نے کہا کہ افغان معیشت کسی ترقیاتی انجن کے بغیر، جو ناپید رہا ہے، طویل مدت میں پائیدار نہیں ہو سکتی۔

(اکمل داوی، وی او اے نیوز)

فورم

XS
SM
MD
LG