رسائی کے لنکس

کیا افغانستان میں معاشی ترقی اور مستحکم کرنسی کے دعوے حقیقی ہیں؟


  • افغانستان میں کرنسی کی مضبوطی اور مہنگائی کنٹرول میں رہنے کے دعوے
  • طالبان حکومت کو تو عالمی برادری نے تسلیم نہیں کیا، لیکن افغانستان کو تنہا بھی نہیں چھوڑا گیا: ماہرین
  • افغانستان میں معاشی ترقی اور کرنسی مستحکم رکھنے کے دعوے غیر حقیقی ہیں: معاشی تجزیہ کار عابد سلہری

"فروری میں جب میرے مالک مکان نے کرایہ نامہ میں اضافے کا نوٹس بھیجا تو میں حیران رہ گیا۔ عام طور پر کرائے میں اضافہ سال بعد کیا جاتا ہے تاہم اس دفعہ یہ ایک سال میں دوسری دفعہ تھا۔"

یہ کہنا ہے کابل کے رہائشی حلیم اللہ حلیمی کا جو گزشتہ پانچ برس سے کابل میں اپنے بچوں کے ہمراہ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔

حلیمی کے مطابق سابق صدر اشرف غنی کے دور حکومت میں وہ اسی گھر کا 22 ہزار افغانی بطور ماہوار کرایہ دے رہے تھے۔ تاہم اگست 2021 میں جب طالبان نے افغانستان کا اقتدار سنبھالا تو ہر طرف غیر یقینی کی صورتِ حال پیدا ہو گئی۔

ان کے مطابق ایک ایسی صورتِ حال میں جب ہر طرف افراتفری تھی اور ہر کوئی افغانستان چھوڑ کر بیرون ملک سکونت اختیار کرنے کی فکر میں تھا تو اس کا مارکیٹ کی صورتِ حال پر گہرا اثر پڑا۔

حلیمی کے مطابق اس صورتِ حال کے پیشِ نظر ان کے مالک مکان نے کرایہ نامہ میں کمی کرتے ہوئے چھ ہزار افغانی کرایہ مقرر کیا۔ لیکن اُن کے بقول افغانستان میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہونے کے بعد کرائے میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور اب مالک مکان نے 20 ہزار ماہوار کرائے کا نوٹس بھیجا ہے۔

یاد رہے کہ طالبان حکومت آنے بعد ملک بھر خصوصاً کابل میں یہ حال تھا کہ لوگ گھروں میں پڑی تمام اشیا بشمول بچوں کے واکر تک، سڑکوں پر لگے بازاروں میں فروخت رہے تھے۔ کیوں کہ وہ ہر صورت میں افغانستان چھوڑ کر جانا چاہتے تھے۔ ایسے میں بڑی تعداد میں افغان باشندے ہمسایہ ملکوں بالخصوص پاکستان منتقل ہوئے۔

کرنسی کی صورت حال یہ ہے کہ آج تقریباً ڈھائی سال بعد ایک امریکی ڈالر کی شرح تبادلہ تقریباً 71 افغانی ہے جب کہ ایک افغانی کے بدلے تقریباً چار پاکستانی روپے ملتے ہیں۔ طالبان حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کی وجہ ملک کی بہتر ہوتی معیشت ہے۔

بعض ماہرین اس کی وجہ بہتر حکومتی پالیسی کو قرار دیتے ہیں جب کہ بعض معاشی ماہرین اسے مصنوعی اور غیر حقیقی قرار دیتے ہیں۔

کابل میں مقیم ماہر معاشیات پروفیسر محمد شبیر بشیری کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان حکومت کو تاحال کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عالمی برادری نے افغانستان کو مکمل طور پر تنہا کر دیا ہے۔

ان کے بقول اقوامِ متحدہ کے ذیلی اداروں سمیت مختلف حکومتیں اب بھی افغانستان کے ساتھ مختلف سطحوں پر رابطے میں ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عالمی برادری انسانی حقوق سے متعلق مختلف شعبوں میں افغانستان کی فنڈنگ کرتی ہے جو ڈالرز کی شکل میں ہوتی ہے۔

اُن کے بقول لاکھوں کی تعداد میں بیرونِ ملک مقیم افغان باشندے اپنے عزیز و اقارب کو ڈالر کی صورت میں رقوم بھیجتے ہیں۔

بشیری کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب ملک میں ہر طرف سے ڈالر کی آمد آمد ہو اور باہر نہ جا رہا ہو تو ظاہر ہے مارکیٹ مستحکم ہو گی۔

ان کے بقول اس وقت ایک جانب جہاں افغانستان میں ڈالر کی ترسیل تو ہو رہی ہے تاہم افغانستان سے ڈالر باہر نہیں بھیجے جا رہے ہیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے ملک کی معیشت مستحکم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

کرنسی کے استحکام کے ساتھ ساتھ افغان مارکیٹس میں اشیائے خورونوش اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی استحکام دیکھا گیا ہے۔ اس وقت افغانستان میں پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 65 افغانی مقرر ہے۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس قیمت کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق گو کہ افغانستان میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں مستحکم ہیں، لیکن چوں کہ بیروزگاری عروج پر ہے۔ اس لیے لوگوں کی قوتِ خرید متاثر ہوئی ہے۔

کابل میں مقیم ایک افغان تاجر نے نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سابقہ دور میں تاجروں کو مشکلات زیادہ تھیں۔ ٹیکس کے بجائے 'بھتہ خوری' کا کلچر عام تھا اور سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر سامان لانے میں کافی مشکلات درپیش تھیں۔ تاہم اب افغانستان میں امن و امان کی صورتِ حال کافی بہتر ہے اور سامان آسانی سے منڈیوں تک پہنچ جاتا ہے۔

کابل میں مقیم صراف عزیز اللہ افغانی کرنسی کو مستحکم رکھنے کے حوالے سے طالبان حکومت کی سخت کنٹرول پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق گزرے وقتوں میں بازار میں دیگر کرنسیوں میں بھی تجارت ہوتی تھی۔

اُن کے بقول طالبان حکومت نے آتے ہی فرمان جاری کر دیا تھا کہ ملک کے اندر تجارتی سرگرمیاں صرف افغان کرنسی میں ہی ہوں گی اور یہی وجہ ہے کہ کرنسی وقت کے ساتھ ساتھ مستحکم ہو رہی ہے۔

'معیشت کی یہ تصویر حقیقی نہیں ہے'

پاکستان میں سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے سربراہ ڈاکٹر عابد سلہری کہتے ہیں کہ اس وقت افغانستان پوری دنیا سے الگ تھلگ ہے اور بینکنگ کے ذریعے اس کا کسی ملک سے لین دین نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں جو کرنسی اس معیشت کی تصویر پیش کرتی ہے اسے قطعاً حقیقت پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

عابد سلہری کے مطابق افغانستان صرف پاکستان، ایران، چین اور چند دیگر وسطی ایشیائی ملکوں کے ساتھ ہی تجارت کر رہا ہے جس کا دائرہ کار بہت محدود ہے۔

ان کے بقول انہی ممالک سے ڈالر خریدے جاتے ہیں اور اسمگل بھی ہوتے ہیں۔ عابد سلہری کے مطابق یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال پاکستانی اداروں نے بارڈر پر ڈالر کی مبینہ اسمگلنگ کو روکنے کے لیے سخت کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تب ہی جا کر ڈالر کچھ مستحکم ہوا۔

عابد سلہری کے مطابق افغانستان کی کرنسی کی اصل شکل تب ہی سامنے آئے گی جب وہ دیگر ممالک کے ساتھ آزادانہ تجارت شروع کرے گا۔

اُن کے بقول اس وقت ہی پتا چل سکے گا کہ افغان کرنسی کی قدر کتنی مستحکم اور کتنی کمزور ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG