رسائی کے لنکس

وزیرِ اعظم مودی کے متنازع بیان کے بعد انتخابات کے دوسرے مرحلے کا آغاز


  • وائناڈ سے حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی دوسری مرتبہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔
  • راہل گاندھی نے 2019 کے انتخابات میں وائناڈ کی نشست سات لاکھ سے زائد ووٹوں کی برتری سے جیت لی تھی۔
  • بی جے پی نے کیرالہ میں اپنے پارٹی یونٹ کے سربراہ کے سریندرن کو راہل گاندھی کے مقابلے میں میدان میں اتارا ہے۔
  • بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی وائناڈ میں امیٹھی کی تاریخ دہرانا چاہتی ہے۔
  • بہار کی جن نشستوں کے لیے جمعے کو ووٹ ڈالے جا رہے ہیں ان میں کشن گنج، پورنیا، بھاگل پور اور کٹیہار کی نشستیں شامل ہیں۔

بھارت میں پارلیمان کے ایوانِ زیریں لوک سبھا کے عام انتخابات کے دوسرے مرحلے میں جمعے کو 13 ریاستوں اور وفاق کے زیرِ انتظام ایک علاقے کے 89 حلقوں میں ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔

ان ریاستوں میں اتر پردیش، مدھیہ پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، کرناٹک، کیرالہ، مہاراشٹر، راجستھان، مغربی بنگال، تری پورہ اور منی پور شامل ہیں۔

انتخابات کے دوسر ے مرحلے میں کیرالہ کے تمام 20 حلقوں، راجستھان کے 13، کرناٹک کے 14، اتر پردیش اور مہاراشٹرا کے آٹھ، آٹھ، مدھیہ پردیش کے سات، آسام اور بہار کے پانچ ،پانچ، چھتیس گڑھ اور مغربی بنگال کے تین، تین اور تریپورہ، منی پور اور جموں و کشمیر کے ایک، ایک حلقے میں ووٹنگ ہو رہی ہے۔

انیس اپریل کو انتخابات کے پہلے مرحلے میں کم ووٹنگ ٹرن آؤٹ اور انتخابی جلسوں کے دوران وزیرِ اعظم مودی کے متنازع بیانات نے آج ہونے والی پولنگ کو اہم بنا دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس انتخابی مرحلے میں توجہ جن انتخابی حلقوں اور امیدواروں پر مرکوز ہے۔ ان میں جنوبی ریاست کیرالہ کا وائناڈ حلقہ سب سے اہم خیال کیا جاتا ہے۔

وائناڈ میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی دوسری مرتبہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔

بھارتی انتخابات: دوسرا مرحلہ اہم کیوں ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:38 0:00

راہل گاندھی کو اُن کے حامی اور بھارت میں ایک سیاسی طبقہ اگلے وزیرِ اعظم کے طور پر دیکھتا ہے۔ کانگریس پارٹی اور بعض سیاسی تجزیہ کار راہل گاندھی کی وائناڈ نشست پر دوبارہ کامیابی کو یقینی سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی اپنی 'بھارت جوڑو یاترا ' کے ذریعے کانگریس کو نئے سرے سے قومی منظر نامے میں ایک مضبوط اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو سخت ٹکر دینے والی پارٹی بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت میں اس بار عام انتخابات سات مختلف مراحل میں ہو رہے ہیں جو یکم جون تک چلیں گے جب کہ چار جون کو انتخابی نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔

حکمراں اتحاد کامیابی کے دعوے کر رہا ہے جب کہ رائے عامہ کے ابتدائی جائزے بھی وزیرِ اعظم مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں ہیں۔ تاہم اپوزیشن کا کہنا ہے کہ الیکشن سروے غیر حقیقی ہیں۔

وائناڈ کے انتخابی معرکے کی اہمیت

اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے 2019 کے انتخابات میں وائناڈ کی نشست سات لاکھ سے زائد ووٹوں کی برتری سے جیت لی تھی۔ انہوں نے ڈالے گئے کُل ووٹوں میں سے 67.7 فی صد ووٹ حاصل کیے تھے۔

اُن کے قریبی مدِ مقابل کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( سی پی آئی) کے امیدوار کو صرف 25 فی صد ووٹ ملے تھے جب کہ بی جے پی نے اپنی اتحادی جماعت 'بھارت دھرم جنا سینا' کے امیدوار کی حمایت کی تھی۔

اس مرتبہ بی جے پی نے کیرالہ میں اپنے پارٹی یونٹ کے سربراہ کے سریندرن کو راہل گاندھی کے مقابلے میں میدان میں اتارا ہے۔

سی پی آئی کی طرف سے پارٹی کی ایک قد آور لیڈر اینی راجہ وائناڈ سے انتخاب لڑ رہی ہیں۔ وہ سی پی آئی کے مرکزی رہنما ڈی راجہ کی اہلیہ ہیں۔

بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی وائناڈ میں امیٹھی کی تاریخ دہرانا چاہتی ہے۔ یاد رہے کہ اتر پردیش کا امیٹھی لوک سبھا حلقہ کانگریس پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا جہاں سے پارٹی کے امیدوار آسانی کے ساتھ انتخاب جیتے آئے ہیں۔

لیکن 2019 میں بی جے پی کی امیدوار اور موجودہ وفاقی وزیر سمرتی ایرانی نے راہل گاندھی کو 55 ہزار ووٹوں کی بھارتی اکثریت سے ہرا کر یہ نشست جیت لی تھی اور اس مرتبہ بھی وہ امیٹھی ہی سے انتخاب لڑ رہی ہیں۔

لوک سبھا کی 543 نشستوں کے لیے سات مراحل کے پہلے مرحلے میں 19 اپریل کو مجموعی طور پر 60 فی صد ووٹ پڑے تھے۔ اس مرحلے میں 21 ریاستوں اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں کے 102حلقوں میں ووٹنگ ہوئی تھی۔

راہل گاندھی کی قسمت کا فیصلہ

تجزیہ کار ونود شرما کہتے ہیں کہ انتخابات کے پہلے مرحلے ہی کی طرح دوسرا مرحلہ بھی اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ راہل گاندھی سمیت کئی اہم سیاسی شخصیات اور لیڈروں کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔

ریاست آسام میں ہونے والے اہم مقابلوں میں کریم گنج میں بی جے پی کے کرپاناتھ اور کانگریس کے رشید احمد چوہدری کے مابین ہونے والا مقابلہ قابلِ ذکر ہے۔

بہار کی جن نشستوں کے لیے جمعے کو ووٹ ڈالے جا رہے ہیں ان میں کشن گنج، پورنیا، بھاگل پور اور کٹیہار کی نشستیں شامل ہیں۔

بھاگھلپور میں بی جے پی کی سربراہی میں قائم قومی جمہوری اتحاد یا این ڈے اے کے امیدوار دُلال چندر گوسوامی کا مقابلہ انڈیا الائس کے طارق انور سے ہو رہا ہے۔

چھتیس گڑھ میں سب سے زیادہ جس انتخابی حلقے پر توجہ مرکوز ہے وہ راجنندگاؤں کا حلقہ ہے جہاں سابق وزیرِ اعلیٰ اور کانگریس لیڈر بھوپیش بگھیل کا بی جے پی کے امیدوار سنتوش پانڈے کے ساتھ کانٹے کا مقابلہ ہے۔

بی جے پی راجنند گاؤں سے 2009 سے انتخابات جیتتی آئی ہے لیکن اس مرتبہ کانگریس کو امید ہے کہ مخالفِ اقتدار ووٹ صورتِ حال کو بدل دے گا۔

کرناٹک میں کون مدِمقابل ہے؟

کرناٹک میں جو اہم سیاسی چہرے میدان میں اترے ہیں ان میں جنتا دل (سیکیولر) کے چوٹی کے لیڈر اور سابق وزیرِ اعلیٰ ایچ ڈ ی کمارا سوامی، بی جے پی کے تیجاسوی سوریا، ڈی کے سریش اور بی جے پی ہی کے یدھوویر کرشنا دتا واڈیا رہیں جو ریاست کے سابق شاہی خاندان کے ایک فرد ہیں۔

کیرالہ میں تروننتا پورم کا حلقہ بھی زیرِ بحث ہے کیوں کہ یہاں سے کانگریس پارٹی کے کرشماتی لیڈر ششی تھرور ایک بار پھر لوک سبھا کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

ان کے مقابلے میں جو دوسرے اہم امیدوار میدان میں ہیں اُن میں بی جے پی لیڈر اور وفاقی وزیر راجیو چندر شیکھر اور سی پی آئی کے پانیان رویندرن شامل ہیں۔

ششی تھرور نے ماضی کے انتخابات میں یہ سیٹ ایک سے زیادہ مرتبہ بھاری اکثریت سے جیتی ہے۔ لیکن تروننتا پورم کے کئی ووٹروں نے برملا طور پر یہ شکایت کی ہے کہ وہ الیکشن جیتنے کے بعد حلقے میں کم ہی نظر آتے ہیں۔

بی جے پی اور سی پی آئی ایم دونوں نے انتخابی مہم کے دوراں مقامی رائے دہندگان میں پائی جانے والی اس ناراضی کا فائدہ اٹھا کر انہیں اپنی طرف کھینچنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

ریاست مغربی بنگال میں جن تین حلقوں دارجلنگ، بالور گھاٹ اور رائے گنج میں جمعے کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ان سبھی حلقوں میں اصل مقابلہ بی جے پی، کانگریس اور صوبائی وزیرِ اعلیٰ ممتا بنرجی کی پارٹی ترنمول کانگریس کے امیدواروں میں ہو رہا ہے۔

اگرچہ چند علاقائی جماعتوں نے بھی ان نشستوں کے لیے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ بالور گھاٹ میں بی جے پی کی مغربی بنگال شاخ کے صدر سکانا مجومدار کا مقابلہ ترنمول کانگریس کے بپلاب مترا اور بائیں بازو کی ریولیوشنری سوشلسٹ پارٹی کے امیدوار جے دیب سدھارتھ کے ساتھ ہو رہا ہے۔

راجستھان میں جو اہم امیدار میدان میں ہیں ان میں وفاقی وزیر گجندر سنگھ شیکھاوت، موجودہ لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا اور صوبائی وزیرِ اعلیٰ اشوک گہلوت کے بیٹے ویبھو گہلوت خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

مہاراشٹرا میں جن اہم امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہو گا ان میں سرکردہ کانگریس رہنما وسنت راؤ چوہان بھی شامل ہیں جو ناندیڑ کے انتخابی حلقے میں انڈیا الائنس کے امیدوار ہیں۔

ناندیڑ کو کانگریس پارٹی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے لیکن اس مرتبہ بی جے پی یہ سیٹ جیتنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے۔ بی جے پی نے چوہان کے مقابلے میں مقامی سیاسی ہیوی ویٹ پرتاپ راؤ کو کھڑا کیا ہے۔

اترپردیش کا معرکہ

انتخابات کے دوسرے مرحلے میں جمعے کو ریاست اترپردیش کے جن آٹھ حلقوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے ان میں متھرا اور میرٹھ کے حلقے بھی شامل ہیں۔

متھرا میں بالی وؤڈ اداکارہ ہیما مالنی بی جے پی کے ٹکٹ پر تیسری مرتبہ جیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ پارٹی نے میرٹھ سے بھارتی فلم انڈسٹری کے معروف فلمساز، ہدایت کار اور کہانی نویس راما نند ساگر کے مشہور ٹی وی سیریل ' رامائن' میں بھگوان رام کا کردار ادا کرنے والے اداکار ارون گوول کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔

واضح رہے رامائن سیریل نے بھارت میں ہندوتوا فلسفے کو ابھارنے میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ بعض حلقوں کی رائے ہے کہ بی جے پی کے نظریے کی عوام میں مقبولیت میں اس ٹی وی سیریل کا ہاتھ ہے۔

میرٹھ میں سماج وادی پارٹی کی سنیتا ورما ارون گوول کا مقابلہ کررہی ہیں جب کہ متھرا میں ہیما مالنی کانگریس پارٹی کے امیدوار مکیش ڈھانگر سے نبرد آزما ہیں۔

دوسرے مرحلے کی پولنگ اور وزیرِ اعظم مودی کا متنازع بیان

جمعے کو جن لوک سبھا سیٹوں کے لیے پولنگ ہو گی ان میں کئی حلقے بالخصوص ریاست اتر پردیش اور بہار میں ایسے ہیں جہاں مسلمان رائے دہندگان اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔

سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ ان کی پسند کے تعین میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کا وہ حالیہ متنازع بیان ایک اہم رول ادا کر سکتا ہے جس میں انہوں نے ملک کے مسلمانوں کو بالواسطہ 'در انداز اور زیادہ بچے پیدا کرنے والے' قرار دیا تھا۔

اسی طرح وزیرِ داخلہ اُمت شاہ نے ایک انتخابی جلسے سے اپنے خطاب کے دوراں کہا تھا کہ نئی دہلی میں دوبارہ اقتدار میں آنے کی صورت میں بی جے پی مسلمانوں کو حاصل چار فی صد ریزرویشن کو واپس لے کر اسے دلتوں اور سماج کے دوسرے پسماندہ طبقوں میں تقسیم کرے گی۔

اپوزیشن پارٹیوں بالخصوص کانگریس نے ان بیانات کو لے کر مودی اور امت شاہ پر ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کا الزام لگایا ہے۔

وزیرِ اعظم مودی کے اس بیان کی بھارت کے اندر اور بیرون ملک بھی تنقید کی جا رہی ہے لیکن بی جے پی کہتی ہے کہ وزیرِ اعظم کے بیان کو اس کے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔

وزیرِ اعظم مودی نے ان انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے لیے 543 میں سے 400 نسشتوں کا ہدف رکھا ہے۔ وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ خود ان کی پارٹی کو اس بار 370 سیٹیں ملیں گی کیوں کہ ان کی حکومت نے اگست 2019 میں جموں و کشمیر کو ہند یونین میں خصوصی حیثیت دلانے والی آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کیا تھا۔

کانگریس اور دوسری اپوزیشن پارٹیاں اسے خام خیال قرار دے رہی ہیں۔ لیکن بھارتی سیاست کے نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اگر بی جے پی کی قیادت میں نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس ان انتخابات میں 400 کا ہدف حاصل نہیں بھی کرتی۔ اسے اتنی تعداد میں سیٹیں ضرور ملیں گی کہ یہ نئی دہلی میں ایک بار پھر آسانی کے ساتھ اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گی۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG